میں تزلزل ہو اور اللہ اور رسول و صحابہ و بزرگانِ دین کی شان میں بے ادبی ہو کہ جو اس زمانہ میں انگریزی کا اکثری بلکہ لازمی نتیجہ ہے۔ اور یہ ترجیح محبِ دین کے نزدیک تو بالکل واضح، ہاں جس کو دین کے جانے کا غم ہی نہ ہو وہ جو چاہے کہے، لیکن بایں ہمہ اس فسادِ استعداد کی اصطلاح کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں، اور اگر اس کی اصلاح ہوئی تو ایک عالم کی اصلاح ہوجائے گی اور پھر جس قدر ۔ُعلما۔َ مدارس سے فارغ ہوکر نکلیں گے وہ دین کے سچے خادم ہوں گے اور دین کی خدمت کر دکھائیں گے۔
علما۔َ سے درخواست:
اس لیے حضراتِ ۔ُعلما۔َ کی خصوص جو حضرات شغلِ تدریس میں مشغول ہیں ان کی خدمات عالیہ میں عرض ہے کہ حضرات! درحقیقت آپ اس وقت بڑا کام کرہے ہیں اور جس طریق سے آپ درس دے رہے ہیں فی الواقع طریق یہی ہے اور اسی طریقِ تدریس سے بڑے بڑے ۔ُعلما۔َ پیدا ہوئے اور اب بھی اگرچہ قلیل ہی سہی مستعد پیدا ہوتے ہیں، لیکن اس زمانے میں بوجہ کم توجہی طلبہ اور قوتِ فہم کے ضعیف ہوجانے کے یہ طریق تدریس کا کافی نہیں ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ طریقۂ تدریس میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے طلبہ کو استعداد ہو۔ اور یقین ہے کہ آپ حضرات اس ضرورت کو محسوس کررہے ہوں گے اور اس طریق کا تجویز کرنا یہ آپ ہی حضرات کا کام ہے، لیکن بفحوائے رب رمیتہ من غیر رام و بمصداق:
گاہ باشد کہ کودکے ناداں
بہ غلط بر ہدف زند تیرے
طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب:
یہ ناکارہ بھی کچھ عرض کرتا ہے شاید وہ صحیح ہو۔وہ یہ ہے کہ اس بداستعدادی کے چند اسباب ہیں۔ طلبہ کی کم توجہی یہ تو مشترک اور عام ہے، اور فہیم اور ہونہار بچوں کا انگریزی میں مشغول ہونا اور ضعیف الفہم طلبہ کا عربی کی طرف توجہ کرنا اور عربی کے فاضلوں کی قدر نہ ہونا۔ ان اسبابِ مذکورہ کے علاوہ ایک اور سبب ہے اور اس کا تدارک مدرسین کے اختیار میں ہے اور اس کے بیان کرنے کے لیے یہ سطریں لکھی گئی ہیں۔ وہ بعنوان مختصر یہ ہے کہ طلبہ کی استعداد سے کام نہیں لیا