ساتویں حالت یہ ہے کہ قیودِ مذکورہ حالتِ ششم کے ساتھ وہ مسئلہ بھی ایسا ہو کہ عوام اہلِ حق کو اس کے غلط ہونے کاشبہ واقع ہوسکتا ہو۔ اس صورت میں خود ان عوام پر واجب ہے کہ ۔ُعلما۔َ سے تحقیق کریں، اور ان کے استفسار کے وقت ۔ُعلما۔َ پر جواب دینا واجب ہوگا، ورنہ بدون سوال وہ سبکدوش ہیں۔ اور ان تمام تر صورتوں میں یہ واجب ہے کہ الفاظ اور مضمون متانت اور تہذیب کے خلاف نہ ہو، اگر دوسرا بھی درشتی کرے تو صبر افضل ہے۔ یہ تمام تر تفصیل و تقسیمِ مذکور ان امور میں ہے جو شرعاً مقصود ہوں۔ بعض وہ امور ہیں جو شرعاً مہتم بالشان نہیں، جیسے خاندانِ چشتیہ اور خاندانِ نقشبندیہ کا باہم متفاضل ہونا، یا بعض وہ اُمور ہیں جن میں بحث کرنے یا حکم لگانے سے شارع ؑ نے منع فرمایا ہے، جیسے تقدیر کا مسئلہ یا کوئی دوسرا مسئلہ جو اسی کی نظیر ہو، یا جیسے باوجود اس کے کہ کسی کا کلام محتمل معنی صحیح کو ہو پھر اس پر کفر کا حکم لگانا ان
میں بحث و مباحثہ کرنا منہی عنہ اور مذموم ہے علی اختلاف مراتب النہی والمنہی عنہ۔ اس تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ نہ ہر مناظرہ محمود ہے نہ مذموم۔ او ر اس تقریر سے تمام ان نصوص و اقوال و عادات ائمۂ دین میں جو اس باب میں بظاہر متعارض نظر آتے ہیں تطبیق ہوگئی۔ او ریہ بھی معلوم ہوا ہوگاکہ زیادہ مناظرے اس زمانہ میں وہی شائع ہیں جو مذموم ہیں۔
مناظرہ کے شرائط:
خلاصہ یہ ہے کہ مناظرہ کا جواز ان شرائط سے مقید ہے: وہ مسئلہ دین میں مقصود بھی ہو۔ دل سے یہ عزم ہو کہ حق واضح ہوجائے گا تو فوراً قبول کرلیں گے۔یہ نیت نہ ہو کہ ہر بات کو رد کریں گے گو سمجھ میں بھی آجائے۔ مخاطب پر شفقت ہو اگر وہ شفقت کے قابل نہ ہو صبر اور معدلت کے ساتھ مقابلہ کرے۔ اگر قرائن سے عناد مشاہد ہو تو مناظرہ سے معافی کی درخواست ترک کردے۔ الفاظ او رمضمون نرم ہو۔ جو بات معلوم نہ ہو نہ جاننے کے اقرار سے عار نہ کرے وغیر ذلک مما ذکر في التقریر المبسوط المار آنفا۔ اور جہاں یہ شرائط نہ ہوں گے جیسا آج کل مشاہد ہے وہاں مناظرہ بجائے نافع ہونے کے بالیقیں مضر ہوگا، جیسا آج کل اس کی مضرتیں محسوس ہورہی ہیں۔ وہ یہ کہ ان فضول لایعنی قصوں کو دیکھ کر عوام الناس ۔ُعلما۔َ سے بدگمان ہوگئے ہیں کہ میاں ہر شخص دوسرے کی تکذیب کررہا ہے پھر وہ بزعمِ خود إذا تعارضا تساقطا پر عمل کرکے سب ہی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یا ایک کی طرف ہوکر دوسرے مقابل کی بے آبروئی اور ایذا رسانی کے درپے ہوتے ہیں اور باہمی عداوت قائم ہوکر جانبین میں غیبت کا دروازہ الگ کھلتا ہے اور ایک دوسرے کی بے آبروئی کی فکر میں الگ لگے رہتے ہیں۔ اور گروہ بندیاں ہوکر مسلمانوں کی قوت اور وقعت میں روزانہ ضعف اور انحطاط ہوتا جاتا ہے۔ کبھی عوام