اور جس روز یہ پردہ اٹھ جائے گا کما قال اللّٰہ تعالٰی: {فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ}1 اس روز سب حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔ قال اللّٰہ تعالٰی: {یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ}2 وقیل:
فَسَوْفَ تَرٰی إِذَا انْکَشَفَ الْغُبَارُ
أَفَرَسٌ تَحْتَ رِجْلِکَ أَمْ حِمَارُ ۔3
پس بفضلہ تعالیٰ اس شبہ کا کہ علمِ دین سے بعض اخلاقِ رذیلہ پیدا ہوتے ہیں بالکلیہ قلع و قمع ہوگیا۔
باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع:
صفاتِ دینیہ مذکورہ فصلِ بالا میں سے بعض کا جو شبہ اہلِ علم میں ہوجاتا ہے منشائے اشتباہ ان کا بعض واقعاتِ جزئیہ ہیں جن کے عمق تک نظر نہ کرنے سے معترضین کو غلطی واقع ہوجاتی ہے۔ مثلاًبعض طلبا و ۔ُعلما۔َ کو دیکھا جاتا ہے کہ لکھے ہوئے لفافے دوسری طرف سے الٹ کر گوند سے جوڑ کر کام میں لے آتے ہیں۔ لوگ ان کو دناء ت و خست سمجھتے ہیں، حالاں کہ غور کرکے دیکھا جاوے تو حقیقت اس کی مال کو اضاعت سے بچانا ہے گو اس درجہ تک کی حفاظت واجب نہ ہو، لیکن محمود اور اولیٰ ہونے میں تو شبہ ہی نہیں۔ متمد۔ّن اقوام کی عموماً ان پر مدح کی جاتی ہے کہ کوئی چیز بے کار نہیں چھوڑتے، ہر چیز سے گو وہ کیسی ہی ناکارہ نظر آئے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ چیتھڑے سے گودڑوں کا کاغذ بنتے ہوئے خود احقر نے دیکھا ہے۔ تعجب ہے کہ اس پر تو مدح ہو اور اس کی نظیر پر خردہ گیری کی جاوے نہایت ہی انصاف سے بعید ہے۔
اور مثلاً بعض اہلِ علم جب اپنے نام کے آئے ہوئے خطوط میں ایک سادہ کاغذ چڑھا ہوا دیکھتے ہیں۔ جس کا آج کل عام رواج ہوگیا ہے تو وہ اس کو جدا کرکے رکھ لیتے ہیں اور کام میں لاتے ہیں۔ اس میں بھی اعتراض کی، اور جواب کی تقریر مثلِ مثال اول کے ہے۔ اتنا فرق ہے کہ اوپر کا فعل واجب نہ تھا اور یہ واجب ہے، کیوں کہ اوپر کی صورت میں لفافہ سے انتفاع تو ہوچکا ہے تو مکرر انتفاع کا اہتمام نہ ہونا اضاعتِ منہی عنہا نہیں ہے۔ اور یہاں اس کو تل کاغذ سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا گیا تو اس سے کام نہ لینا بالکلیہ اضاعتِ مال ہے جس سے نہی آئی ہے: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ قِیْلَ وَقَالَ وَکَثْرَۃِ السُّؤَالِ وَإِضَاعَۃِ الْمَالِ۔1 اور اس کے مقابلے میں ان کو تل کاغذ لگانے والوں کو بلاشک و شبہ مسرِف و مبذِر کا لقب دیا جاوے گا۔
اور کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ چھدام کے کاغذ میں کیا اسراف ہوگا۔ اہلِ قانون خوب جانتے ہیں کہ جب غبن جرم ہے تو ہزار روپے کا غبن جیسا جرم ہے ویسا ہی ایک پائی کا غبن بھی جرم ہے، اور اس کا مرتکب بھی اسی طرح مستحق سزائے فوج داری کا ہوتا ہے جیسا کہ زیادہ غبن کا مرتکب۔ پھر کیا وجہ کہ قانونِ شرعی میں چھدام کے کاغذ کے برباد کرنے کو جرمِ اسراف میں