عَنْ أَبِيْ أُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ ھُدًی کَانُوْا عَلَیْہِ إِلَّا أُوْتُوا الْجَدَلَ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ہَذِہِ الْآیَۃَ {مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًاط بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ}۔1
اس حدیث کا حاشیہ بھی قابلِ ملاحظہ ہے:
المراد بالجدل ہہنا العناد، والمراد التعصب لترویج مذاہبہم من غیر أن یکون لہم نصرۃ علی ما ہو الحق وذلک محرم۔
اور جس طرح اس عمل کی مذمت آئی ہے اسی طرح اس کے ترک کی فضیلت و مدح آئی ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَھُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَہُ فِيْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ، وَمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَھُوَ بِحَقٍّ بُنِيَ لَہُ فِيْ وَسْطِ الْجَنَّۃِ، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہٗ بُنِيَ لَہُ فِيْ أَعْلَاھَا۔2
مناظرہ کرنا کب ضروری ہے:
اور اگر کسی کو شبہ ہو کہ قرآن مجید میں {جَادِلُھُمْ} امر آیا ہے اور {لَا تُجَادِلُوْا} کے بعد استثناء {اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ}1 (1 العنکبوت: ۴۶) آیا ہے اور خود احادیث میں محاجہ رسول اللہ ﷺ کا نصاریٰ سے جس کی تائید میں سورۂ آلِ عمران کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں وارد ہے۔ ائمۂ دین نے سلفاً و خلفاً اہلِ بدعت سے محاجہ کیا ہے، اور بہت سی تصانیف ان حضرات کی اس باب میں ہیں۔ اور علمِ کلام اسی غرض سے ایک مستقل اور مدوّن فن ہوکر باجماعِ ۔ُعلما۔َ ئے اُمت علومِ دینیہ میں داخل ہوگیا۔ نیز ضرورت بھی اس کی مشاہد ہے، کیوں کہ اہلِ باطل ہر زمانہ میں بکثرت موجود رہے اور اب بھی ہیں، اور وہ لوگ اپنے باطل کی ہمیشہ
ترویج کرتے ہیں، تو اگر ان کا جواب نہ دیا جائے تو عوام کا تلبیس و تخلیط میں پڑجانا کچھ بھی بعید و عجیب نہیں، اور جواب دینے میں عوام کی بھی حفاظت ہے، اور بعض اوقات خود اہلِ باطل کو بھی ہدایت ہوجاتی ہے۔ اور یہی قیل و قال جواب و سوال مجادلہ و مناظرہ ہے تو ایسے ضروری امر کو مذموم کیسے کیا جاسکتا ہے؟
جواب اس کا یہ ہے کہ ہر مجادلہ کا مذموم ہونا اور ہر حالت میں مذموم ہونا ہمارا مد۔ّعا نہیں۔ بعض مجادلات و حالات مستثنیٰ بھی ہیں، اور دین میں انہیں کا اذن بھی ہے۔ ان کے سوا باقی مذموم ہیں یا ان کا ترک محمود ہے۔ مگر ہمارے زمانہ میں تو زیادہ افراد اسی مجادلہ مذموم یا محمود الترک کے پائے جاتے ہیں جن کی مذمت حدیثوں میں اور نیز آیات میں اور کلامِ اکابر میں موجود ہے۔ حدیثیں تو بعض اوپر گذر چکی ہیں، بعض آیات یہ ہیں:
{فَلَا تُمَارِ فِیْہِمْ اِلَّا مِرَآئً ظَاہِرًاص وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا}1