بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۔ُعلما۔َئے کلام نے ہمیشہ مناظرہ کیا ہے۔ سو اول تو بعض اکابر نے بعض وجوہِ کلام پر خود انکار بھی کیا ہے جیسا اوپر ’’اِحیاء العلوم‘‘ وغیرہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پھر جو طرق مقبول ہوئے ہیں وہ ایسے نہیں جیسا آج کل کا طرز ہوگیا ہے۔ کتابیں دیکھ لیجیے کیسی تہذیب ومتانت سے مخالف پر ردّ کیا ہے اور ضروری پر اکتفا کیا ہے، نہ ضلع ہے، نہ جگت ہے، نہ پھکڑ ہے، نہ ہر ہر لفظ کا ردّ ہے، نہ لایعنی الفاظ یا مضامین ہیں، نہ لفظی مواخذات ہیں، نہ عنادی مناقشات ہیں۔ مخالف کے وجوہِ محتملہ کا خود ابدا کرتے ہیں اور قابلِ قبول سامان لیتے ہیں، جو قابل ردّ ہوا طریقۂ حسنہ سے رد کرتے ہیں۔ سو کہاں یہ مناظرہ اور کہاں آج کل مشاجرہ! ان دونوں کے فرق کے لیے بے ساختہ یہ مصرع یاد آتا ہے:
آنچہ مردم میکند بوزینہ ہم
یہ بحث ضروری تھی مجادلین کے باب میں جن کی غرض طلبِ جاہ یا بزعمِ خود خدمتِ دین ہے جس پر اس آیت کا پڑھنا بالکل صحیح ہے:
{اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًاط}1
وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی:
بعضے لوگ وعظ کو طلبِ جاہ کا آلہ بناتے ہیں جیسا بعضے اس کو طلبِ مال کا آلہ بناتے ہیں جن کا ذکر اس فصل کے شروع میں ہوچکا ہے۔ حدیث میں اس کی مذمت بھی آئی ہے:
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّb قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِw: لَا یَقُصُّ إِلَّا أَمِیْرٌ أَوْ مَأْمُوْرٌ أَوْ مُخْتَالٌ۔1
وَعَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَb قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِw: مَنْ تَعَلَّمَ صَرْفَ الْکَلَامِ لِیَسْبِيَ بِہِ قُلُوْبَ الرِّجَالِ أَوِ النَّاسِ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا۔1
اورایسا شخص اس قاصدِ مال سے بھی بدتر ہے کیوں کہ طالبِ مال طبعاً اپنے کو ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اوریہ شخص اپنے کو بڑا اور مال نہ لینے کے سبب اپنے کو مقدس سمجھتا ہے۔ اور ایسے شخص کے وعظ میں مسلمانوں کی تحقیر اور ایذا او رطعن بلکہ سب۔ّ وشتم کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا بلکہ بڑا حصہ اس کے وعظ کا یہی ہوتا ہے۔ ۔ُعلما۔َ ورثہ ہیں انبیا ؑ کے ان کو ویسی ہی شفقت امت پر ضروری ہے۔ اور ایک مشترک خرابی طالبِ مال و جاہ واعظین میں یہ ہے کہ بدون کافی علم کے وعظ کہنے لگتے ہیں اور مسئلہ پوچھنے پر کبھی نہیں کہتے کہ ہم نہیں جانتے، خود اس پر بھی وعیدیں مثل ضلوا وأضلوا کی وارد ہیں۔ اور حدیثِ مذکور لایقص إلخ سے محققین و محقین واعظین پر شبہ نہ کیا جائے کہ یہ نہ امیر ہیں نہ مامور من الامیر، پس یہ بھی مختال ہوں