اہلِ علم کو سلوک اہلِ دنیا کے ساتھ:
اور ۔ُعلما۔َ کو چاہیے کہ:
۱۔ دنیاداروں کو اپنا برابر کا بھائی سمجھیں۔
۲۔ ان سے تعظیم و خدمت کے متوقع نہ ہوں۔
۳۔ اگر بلاتوقع کچھ کردیں تو یوں سمجھیں کہ علم اور دین کی خدمت تو ہماری ذمے تھی، انہوں نے احسان کیا کہ ہماری اعانت کی۔ اس میں قیل و قال نہ کریں۔ جیسے بعض کی عادت ہے کہ کہیں تقررِ تنخواہ پر تکرار ہے، کہیں ترقیٔ تنخواہ کا تقاضا ہے، کہیں نذرانہ پر بحث ہے۔
۴۔ اگر ان سے کچھ بے تمیزی ہوجائے صبر کریں، بدمزاجی نہ کریں۔ یہ سمجھ لیں کہ جب ان کو ہمارے برابر علم نہیں تو ہمارے برابر تمیز کیسے ہوگی۔
۵۔ اگر کسی کو قولاً یا فعلاً حدِ شرع سے متجاوز دیکھیں جس پر حکومت اور قدرت نہ ہو اس پر تشدد نہ کریں، نرمی اور دلجوئی سے بہت اصلاح ہوتی ہے۔
۶۔ اگر عامی کوئی حق بات کہے قبول کرنے سے عار نہ کریں۔
۷۔ اگر کسی مسئلہ میں اپنی غلطی ظاہر ہو اعلان کردیں۔
اب اس رسالہ کو ختم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ رسالہ باوجود اختصار کے ضروریات متعلقہ علومِ دینیہ کے لیے جامع اور ۔ُعلما۔َ و عوام دونوں کے لیے نافع ہے۔
إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا باللّٰہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔
آغاز رجب ۱۳۳۰ھ
ناصح الطلبہ
جس کا ذکر حقوق العلم کے باب دوم کی فصلِ سوم میں ہوا