اہلِ علم کو اتنی وسعت نہیں۔پھر اگر کسی کو وسعت بھی ہو تو ہمت مشکل ہے جب کہ فرض و واجب بھی نہ ہو۔ اور اگر بیرنگ بھیجیں تو تجربہ ہوا ہے کہ بہت لوگ بیرنگ جواب واپس کردیتے ہیں بعضے واپس تو نہیں کرتے مگر بدون انتظارِ جواب اور بلاانتظامِ ڈاک خود کہیں چل ہی دیتے ہیں۔ جب ڈاکیہ کو نہیں ملتے تو وہاں سے خط واپس آتا ہے او رمحصول مضاعف دینا پڑتا ہے۔ اور اگر فرضاً سولہ کے سولہ خط واپس آیا کریں تو ڈیڑھ روپیہ روز یعنی پینتالیس روپے ماہوار، اور اگر نصف ہی واپس ہوں تو تیئس ہی روپے ماہوار اس مد میں خرچ ہوا کریں تو ان پر کس قاعدہ سے واجب ہے کہ وہ اتنا بڑا بار اپنے اوپر اٹھائیں۔ البتہ خصوصیت کی جگہ ہر شخص باآسانی اس قسم کے بار کو اعتدال کے ساتھ برداشت کرتا ہی ہے بلکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر سوال کے ساتھ بطور فیس کچھ پیش کیا جاتا کہ اہلِ علم کی اعان ہوتی خواہ ان کی ذات کی یا صرف آلاتِ افتا کی، کیوں کہ جواب کے لیے وقت بھی چاہیے، کتب بھی چاہیے، کبھی معین [دوست] بھی درکار ہوتا ہے، خادم کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ڈاک وقت پر لائے لے جائے، وعلی ہذا۔ چناں چہ بعض اہلِ علم نے اس کا قاعدہ بھی مقرر کردیا ہے جس میں کچھ مضائقہ نہیں بشرطے کہ خلافِ شریعت نہ ہو۔ سو اگر کہیں ایسا نہ ہو تو اسی کو غنیمت سمجھیں کہ ہم پر بار نہیں پڑا نہ کہ اہلِ علم سے مالی بار اٹھانے کے متوقع رہیں کہ ظلمِ عظیم ہے۔
پانچویں فصل
متفرق شبہات کے جوابات:
اس میں بعض شبہاتِ متفرقہ کا جواب ہے اور اس باب کی یہ اخیر فصل ہے۔
۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ:
ایک شبہ دنیاداروں کا اہلِ علم کی نسبت یہ ہے کہ ان میں باہم رد و قدح خوب ہوتا ہے، کبھی زبانی گفتگو میں اورکبھی رسالہ بازی کے ذریعہ سے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں باہم عناد و حسد ہوتا ہے او رہر شخص دوسرے کو گھٹانا اور مٹانا چاہتا ہے، تو ایسے لوگوں سے اسلام کو بجائے نفع کے اُلٹا ضرر ہوتا ہے۔