نواسنج ہے کہ
دست از طلب ندارم تا کام من برآید
یا تن رسد بجانان یا جان ز تن برآید
صاحبو! یہ شخص قومی انجمن کا ڈرائیور ہے۔ ڈرائیور کو غسل اور صابن ۔َملنے کی اور کوئلوں کے جھاڑنے کی فرصت کہاں، اگرفرسٹ وسیکنڈ کلاس کے متنعم اس پر اعتراض کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم ولایت اسی کی بدولت پہنچے ہیں اور وہاں سے ڈگریاں حاصل کرکے فرسٹ و سیکنڈ کا سفر کررہے ہیں تو نادانی نہیں ہے تو کیا ہے؟ مگر یہ ڈرائیور نہایت متانت سے ان کے
سب اعتراضوں کے جواب میں اتنا کہہ دیتا ہے:
کجا دانند حال ما سبکساران ساحل ہا
اور جتنی کم ہمتی ہے اس کا سبب بھی یہی ہے کہ اپنا اصلی کام اُن کو اس قدر تھکا دیتا ہے کہ پھر آرام کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اور یہ حالت انگریزی طالبِ علموں کوبھی پیش آتی ہے، مگر وہ اکثر خوش حال ہوتے ہیں۔ ان کے نوکر چاکر ایسے کام کرلیتے ہیں اس لیے وہ عالی ہمت نظر آتے ہیں۔
طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب:
اور طالبِ علموں کو سردھوئے یا غسل کیے ہوئے بہت بہت زمانہ گذر جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت میں صفائی نہیں رہتی۔ اس کے متعلق بھی بحث اور تحقیق منشا مثل اوپر کے ہے۔ اور تعیین منشائے مذکور کا مؤید ایک واقعہ ہے۔ وہ یہ کہ ہم نے بکثرت دیکھا ہے کہ جو طلبہ مسکن اور ملبس کی تزئین میں زیادہ رہتے ہیں وہ کمال سے محروم رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منشا اس کا انہماک فی المقصود تھا، جب توجہ تزئین کی طرف ہوئی تو مقصود میں مشغولی نہ ہوگی اس کے لیے حرمان لازم ہے، البتہ نظافت کا بالکل اہمال خود خلافِ شرع ہے اس لیے اس کا انتظام بقدرِ ضرورت ضروری ہے۔ اور اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ منتظم مدرسہ خواہ بذریعۂ ملازم یا خود طلبا کو تصریحاً حکم دے کر اپنی نگرانی میں ہفتہ وار ضروری صفائی کرادیا کرے۔
طلبہ کا بے ڈھنگا پن: