باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب:
اسی شبہ بخل کی ایک فرع ہے بعضے مولویوں کا بہت باریک قلم سے کارڈ پر بہت سی عبارت لکھ دینا، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا واقعہ اس کے جواب کے لیے کافی ہے۔ وہ یہ کہ جس جگہ مخالفتِ قانون کے سبب شریعت اجازت نہیں دیتی وہاں ایک حرف لکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مثلاً ایک طالبِ علم کا ارادہ کسی دوست کو اپنی خیریت کا ایک کارڈ لکھنے کا تھا جو اس کے پاس سے ابھی دوسرے شہر چلا گیا تھا۔ اتنے میں ڈاکیا آیا اور اس نے اسی دوست کے نام کا ایک کارڈ جو اس طالبِ علم کی معرفت تھا اس کو دیا اور اس کے موجود نہ ہونے کی اطلاع پر ڈاکیے نے درخواست کی کہ آپ اس کا پتہ بدل کر ڈاک میں چھوڑ دیجیے۔ اب میدان خالی ہے اور یہ طالبِ علم قادر ہے کہ اسی کارڈ کے بین السطور میں اپنی خیریت لکھ دے اور ڈاک میں چھوڑ آئے اور اس طرح سے اس کا کارڈ بچ جائے، لیکن چوں کہ قانون سے یہ ممنوع ہے اور ان مسائل میں قانون کے خلاف کرنا شرعاً جائز نہیں اس لیے یہ شخص کبھی ایسا نہیں کرے گا۔
اسی طرح بہت دفعہ خود میرے پاس ایسے خطوط آجاتے ہیں جن کا ٹکٹ ڈاک خانہ کی مہر سے صاف بچ جاتا ہے۔ میں اس خط کے پڑھنے سے بھی پہلے یہ کام کرتا ہوں کہ اس ٹکٹ کو
چاک کرکے پھینک دیتا ہوں، حالاں کہ اگر کوئی شخص اس کا استعمال کرے تو کسی کو پتہ بھی نہ چلے مگر تد۔ّین اس کی اجازت نہیں دیتا اس لیے ایسا نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح سب اہلِ علم اس تد۔ّین پر عمل کرتے ہیں۔ ان واقعات سے ہر عاقل اندازہ کرسکتا ہے کہ کارڈ پر باریک قلم سے لکھنے کا سبب بخل نہیں ہے ورنہ دوسرے مواقع پر آثار اس بخل کے کیوں نہیں ظاہر ہوتے، بلکہ منشا اس کا بلاضرورت زیادہ صرف نہ کرنا ہے جو عین مقتضائے دانش مندی ہے، البتہ ا س کے امثال میں اتنا غلو کرنا کہ نگاہ پر زور پڑے یا وقت زیادہ صرف ہو جس میں دوسرا ضروری اور مفید کام کرسکتا تھا یہ بے شک مذموم ہے کہ دھیلا (آدھا پیسہ) کا تو فائدہ کیا اور نگاہ اور وقت کا کہ لاکھوں روپے کی چیزیں ہیں نقصان کیا۔
تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے:
اور مثلاً اکثر وضع و لباس اہلِ علم کا سادہ اور کبھی اپنے گھر کا دھلا ہوا اور کبھی پیوند وغیرہ لگا ہوا کبھی بند یا بٹن کھلا ہوا دیکھا جاتا ہے، اس سے ان پر تذلل کا شبہ کیا جاتا ہے، لیکن اس شبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تذلل کی حقیقت ہی یہ حضرات نہیں