{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَاللّٰہُ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِO قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِO}1
اور آیتِ کریمہ: {اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاO}2
اور آیتِ کریمہ: {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ}3
اور آیتِ کریمہ: {وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاO}4
اور {لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ}1
اور {اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ}2
اور حدیث: ’’اَلْمُؤْمِنُ غِرٌّ کَرِیْمٌ وَالْمُنَافِقُ خَبٌّ لَئِیْمٌ‘‘3 وغیر ذلک من الاٰیات والروایات کو غور کرلیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ صفاتِ مذکورہ جو اہلِ علم میں پائے جاتے ہیں آیا رذائل ہیں یا فضائل، اور معترضین نے ان کا نام رذائل قرار دے کر ان کے مقابل میں جو فضائل ٹھہرائے ہیں نصوص میں ان پر وعیدیں وارد ہیں اور شریعت میں ان کے یہ نام ہیں: حرص و طولِ امل، کبر، ۔ُعجب، اتلافِ حقوق، اسراف و تبذیر، حب۔ّ الدنیا غفلت عن الآخرۃ۔ تو اب شریعت کے فیصلے کو مانیں یا ان مخترعین کے۔
اور اگر کوئی صاحب اسلامی فیصلہ پر راضی نہ ہوں تو حکمت و اخلاق کی کتابوں کو دیکھ لیجیے کہ جن مفہومات کے مقابلے میں وہ الفاظِ قبیحہ موضوع کیے ہیں آیا ان کو اخلاقِ حمیدہ میں ذکر کیا گیاہے یا اخلاقِ ذمیمہ میں۔ اور اگر کتبِ اخلاق بھی حجت نہیں بلکہ خود یہ اپنے قول ہی کو حجت سمجھتے ہیں تو ہم کو بھی مقابلے میں یہ کہنے کا حق ہے کہ نہیں ہمارا ہی قول حجت ہے، خاص کر جب کہ مؤید بارشاداتِ انبیا و حکما بھی ہو۔ اب ان صفات کو سنیے جو علومِ دین نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہیں اور اس حالت میں اور زیادہ پیدا ہوتی ہیں جب علمِ دین نہ ہونے کے ساتھ دوسرے علومِ باطلہ یا صحبتِ اہلِ باطل نے بھی اثر کیا ہو۔ ان کے یہ عنوانات ہیں: قارونیت، فرعونیت، ظلم، حمق، خربرہ جن کا حاصل بلفظ دیگر حرص و طولِ امل وغیرہ ہے جن پر وعیدیں وارد ہیں۔ تو اگر ۔ُعلما۔َئے دین کو پست خیال ذلیل وغیرہ کہا جائے گا تو اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کے مقابل دوسری جماعت کو قارون، فرعون کہا جائے۔
اور اگر ان الفاظ کے صحیح معنی لیے جائیں یعنی پست خیالی یہ کہ فقط اپنی تن پروری و شکم پروری سے مطلب ہو اور دوسروں کو نفع پہنچانے کا خیال نہ ہو، اور کم ہمتی یہ کہ مشقت سے گھبراوے اور آرام کی فکر میں رہے اگرچہ حقوق ضروریہ تلف