یہ تمام تر تقریر تو استعداد کے متعلق تھی۔ اب اخلاقی حیثیت سے جو تغیر طلبہ میں ہوا ہے وہ معروض ہے۔ وہ یہ کہ اخلاق کے اعتبار سے تغیرات تو بہت ہوئے ہیں، لیکن صرف دو امر کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جن کے تدارک کی نہایت ہی ضرورت ہے: اول ان میں سے بے ریش لڑکوں کا فتنہ ہے جو مدارس میں بلائے عام کی طرح شائع ہے۔ اس کے تدارک کی سخت ضرورت ہے اور اس کے ۔ُبرے نتائج محتاجِ بیان نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ مدارس میں یہ انتظام ہونا ضروری ہے کہ دس دس یا بیس بیس لڑکوں کے لیے ایک معمر متقی تنخواہ دار نگران مقرر کیا جائے اور مندرجہ ذیل امور اس کے متعلق ہونا چاہئیں:
۱۔ ان کو کسی بڑے طالبِ علم سے نہ ملنے دے۔
۲۔ نگران سے الگ ہوکر آپس میں بھی وہ ایک دوسرے سے باتیں نہ کریں۔
۳۔ ان کے اندرونی حالات کی بخوبی نگرانی کرے۔
۴۔ ان کے نام جو خطوط آئیں وہ بھی دیکھ کر دے۔
۵۔ ان کے سر منڈواتا رہے۔
۶۔ پان کھانے سے روکے۔
۷۔ ان کا لباس سادہ ہو اگرچہ اُ۔َمرا کے بچوں کا قیمتی ہو۔
۸۔ نماز و جماعت میں ان کی حاضری کی فکر رکھے۔
۹۔ اگر کہیں تفریح کے لیے یا کسی ضرورت کے لیے بازار وغیرہ جائیں تو خود ان کے ساتھ رہے۔
۱۰۔ اگر ان امور کے خلاف کریں تو مناسب سزادے۔ وغیرذلک۔
طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے:
دوسرا تغیر نہایت قابلِ حسرت و افسوس ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں نیچریت اور نئی روشنی کے اثر کی ایسی کثرت ہوئی جیسے آب و ہوا کے فساد سے ہیضہ اور طاعون کی، اور اس اثر سے بہت کم نفوس محفوظ رہے ہیں۔ اگرچہ اس اثر سے چند روز قبل عام لوگوں کے متاثر ہونے کا صدمہ تھا، لیکن اب تک طلبہ و ۔ُعلما۔َ اس سے بحمدللہ محفوظ تھے اور اب بھی بہت سے بحمدللہ محفوظ ہیں، لیکن اب چند روز سے نوعمر طلبہ میں یہ اثر معتدبہ درجے میں آگیا ہے۔ اس کا نہایت درجے قلق ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ خدانخواستہ ان کے عقائد بھی ان لوگوں کے عقائد جیسے ہوگئے ہیں۔ تو بہ توبہ۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ