سمجھے جو تواضع کو تذلل سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عزت کا مدار استغنا اور تذلل کا مدار اظہارِ احتیاج ہے، لباس ووضع کو اس میں اصلاً دخل نہیں۔ اگر کپڑے پرانے ہوں مگر ہفت اقلیم سلطان کا بھی دست نگر نہیں وہ معزز ہے۔ اور اگر لباس ووضع نوابوں کا سا ہے، ہزار روپے تنخواہ ہے، ہزار روپیہ جائیدا دکی آمدنی ہے، سامان امیرانہ بھرا ہے مگر نظر اس پر ہے کہ اس مقدمہ میں کچھ مل جائے، فلاں معاملہ میں کچھ ہاتھ آجائے جو کہ رشوت ہے وہ شخص بالکل ذلیل ہے۔ پس اہلِ علم کی یہ وضع کبھی تو محض تواضع کے سبب ہے کہ اپنے کو بڑا آدمی نہیں سمجھتے اور یہی بڑائی کی علامت ہے، اور کبھی غایت مشغولی مہمات و امور عظام میں اس کا سبب ہوتا ہے۔ چناں چہ مشاہدہ اور امر طبعی ہے کہ جو شخص کسی مہتم بالشان اور جلیل القدر کام میں منہمک و مستغرق ہوگا اس کو اپنی تن آرائی اور شکم پروری کی فرصت نہ ملے گی۔ چناں چہ تقریبات کے مہتممین اور سرکاری وقتی کے منتظمین کی حالت دیکھی جاتی ہے کہ وقت پر کھانا بھی یاد نہیں رہتا، کئی کئی روز کپڑے بھی بدلنے میں نہیں آتے۔ کیا یہ
تذلل ہے؟ بلکہ غایت عزت ہے کہ اپنے منصبی فرض کو کس اہتمام سے انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح تجربہ ہے ریفارمر اور مصلح جس درجے خدمتِ اصلاح میں مستغرق ہوگا اسی درجہ اس کو اپنے تن بدن سے بے التفاتی ہوگی۔ سو یہ صفت تو قابلِ قدر ہے نہ کہ محلِ اعتراض۔
کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب:
اور مثلاً یہ کہ اکثر طالبِ علموں کے حجروں میں کوڑے کا ڈھیر لگا رہتا ہے کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اس کو صاف کرلیں۔ یہ بھی غایت کم ہمتی ہے۔ اس شبہ میں کچھ واقعیت ضرور ہے مگر منشا صرف اس کا کم ہمتی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک دوسری بات بھی ہے یعنی انہماک تحصیل علوم میں کہ ان کو ایسے جزئیات کے لیے نہ وقت ملتا ہے، نہ اس طرف توجہ ہوتی ہے۔ اگر کم ہمت ہوتے تو رات رات بھر کیسے جاگتے، کوئی دوسرا جاگ کر تو دکھلادے۔ اگر کم ہمت ہوتے تو دھوپ میں بڑی بڑی مسافتیں طلبِ علم کے لیے کیسے قطع کرتے۔ فقر و فاقے کیسے جھیلتے، کیا یہ علامتیں کم ہمتی کی ہیں؟ اور یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ تحمل اضطراری ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس کی زندہ نظیریں موجود ہیں کہ ان کو اس حالت میں آرام کی نوکری مختصر تعلیم کی ملتی ہے، تنخواہ بھی اچھی ہے، قدر و منزلت بھی خوب ہے، آسایش کا سامان بھی ہے مگر علوم میں ترقی نہیں۔ بس اتنی بات پر تمام عیش پر خاک ڈال کر دیوانوں کی طرح بے سروسامانی میں ایک مدرسہ کو قبلۂ توجہ بناکر چل کھڑا ہوا اور مہینہ بھر میں پائوں میں آبلے لے کر مدرسہ پہنچا اور چار مہینے وہاں فاقہ کی مصیبت اٹھائی مگر بزبانِ حال نہایت استقلال کے ساتھ