کیا صورت ہوگی۔ اگر زید نے عمرو کو اپنے قول پر لانا چاہا اور عمرو نے زید کو، تو یہی اتفاق نہ ہوا۔ اور زیادہ رنگ طبائع کا یہی ہے بھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اتفاق کے استحسان پر اتفاق ہے پھر اتفاق نہیں ہوتا، کیوں کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے نقطۂ خیال پر لانا چاہتا ہے، اسی طرح دوسرا بھی۔ اور اگر زید نے عمرو کا قول لے لیا اور عمرو نے زید کا قول لے لیا تو پھر باہم اختلاف رہا گو صورت دوسری ہوگئی، اور اگرنہ یہ ہوا نہ وہ ہوا بلکہ اول مرجح کی تلاش ہوئی کہ اس کا اتباع دونوں کریں گے تو اس کا حاصل وہی ہوا جو اوپرمعروض ہوا ہے کہ اول تحقیق کرکے حق کو متعین کرلیں پھر صاحبِ باطل کو مجبور کیا جائے کہ وہ حق کا اتباع کرے، صاحبِ حق کو کچھ رائے نہ دی جائے۔ بہرحال نااتفاقی کا الزام جانبین کو دینا یہ ایک بے تحقیق اور غلط فیصلہ ہے۔
زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ:
ایک اعتراض عموماً ۔ُعلما۔َ کی نسبت یہ ہے کہ ۔ُعلما۔َ اپنے فتاویٰ میں مصلحتِ زمانہ کا لحاظ نہیں کرتے، وہی پرانے مسائل بتلادیتے ہیں حالاں کہ زمانہ کی ضرورتیں بدل گئی ہیں اور زمانہ کی ضرورت سے احکام بدل جاتے ہیں، اب ۔ُعلما۔َ کو چاہیے کہ سود کو اور معاملات ربویہ و فاسدہ کو درست کہہ دیں۔ یہ اعتراض اس قدر ظاہر البطلان ہے کہ اس میں رد ہی کی احتیاج نہیں۔ یہ تو جب کہا جاتا کہ شریعت کے احکام کسی بشر کے بنائے ہوئے ہوتے تو اس احتمال کی گنجایش تھی کہ اس بشر کو آیندہ مصالح پر نظر نہ تھی، جب مصالح بدل گئے تو احکام کا بدل ڈالنا بھی مناسب ہے۔ اور جس حالت میں وہ احکام خداتعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ہیں خواہ بواسطۂ وحی متلو یا وحی غیر متلو، یا اگر وہ اجتہادی ہیں تو بوجہ غزاتِ علم و تد۔ّین و تورّع ان مجتہدین کے ان میں استسناد الی الوحی کا ظن زیادہ غالب ہے بہ نسبت ہمارے استنباط کے تو وہ احکام بھی بوجہ اس کے کہ قیاس مظہر ہوتا ہے مثبت نہیں ہوتا نیز ثابت بالوحی ہوئے۔ بہرحال جب یہ سب احکامِ شرعیہ خدائے تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ہیں جن سے قیامت تک کی مصالح کی ایک جزئی مخفی نہیں تو ان میں یہ احتمال کب ہے کہ آیندہ مصالح کی رعایت نہیں کی گئی، بلکہ جس مصلحت کی اس میں رعایت نہیں وہ واقع میں مصلحت ہی نہیں۔ او رمصالح کے تبدل سے احکام کا بدلنا وہاں ہے جہاں مبنی اس حکم کا کوئی خا ص مصلحت یقینا ہو، اور جہاں خود اسی کا تیقن نہ ہو تو مصالح تخمینہ ظنیہ پر مدارِ حکم نہیں ہے۔ جیسے حطیم کو کعبہ کے اندر شامل نہ کرنا مبنی تھا مصلحت دفعِ تشویشِ عوام پر، جب عبداللہ بن زبیرؓ نے اس مصلحت کا ارتفاع دیکھ لیا اور اندیشہ تشویش کا نہ رہا حطیم کو داخل کردیا، گو بعد میں اُن کے مخالفین نے پھر خارج کردیا۔ بخلاف رمل فی الطواف کے کہ ظاہراً مصلحت اس میں اراء تِ قوت تھی مشرکین کو اور وہ اب نہیں ہے، تو چاہیے تھا کہ وہ حکم مرتفع ہوجاتا مگر بعد فتح مکہ کے حجۃ الوداع میں بھی رمل کا ہونا یہ دلیل اس کی ہے کہ وہ ایک وقتی مصلحت تھی،