خیال ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ طلبہ زیادہ آئیں گے اور دوسرے یہ کہ جب بڑے بڑے مشہور مدارس میں اس کا اجرا ہوگا تو طلبہ ہرگز نہ جائیں گے اور اس طریق سے استنکار کی کوئی وجہ نہیں۔ ایسی ایسی ترمیمات تو ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ دیکھئے سلفِ صالحین اور محدثین ؒ کا طرز یہ تھا کہ شیخ خود پڑھتے تھے اور تلامذہ سنتے تھے اور اس وقت یہی نافع ہونے میں کافی تھا اس لیے کہ وہ تلامذہ خود عالم ہوتے تھے، ان کو اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ خود پڑھیں۔ اس کے بعد جب استعداد میں وہ قوت نہ رہی اور یہ طریق ناکافی ہونے لگا تو ۔ُعلما۔َ نے اس طرز کو بدل دیا کہ شیخ سنے اور تلامذہ میں سے ایک شخص عبارت پڑھے اور پڑھنے کے لیے وہ منتخب ہوتا تھا جو عبارت جلدی پڑھ سکتا تھا۔ ایک زمانہ تک یہی طرز رہا اس کے بعد پھر نمبر مقرر کیا گیا کہ نمبروار سب پڑھیں۔ پھر نمبروار پڑھنے میں یہ شبہ ہوا کہ جس کا نمبر ہوگا وہ مطالعہ دیکھے گا اور باقی نہ دیکھیں گے اس لیے نمبر بھی بعض جگہ مقرر نہیں رہا بلکہ استاد جس کو کہہ دے وہ پڑھے اور مطلب کی تقریر ہر حالت میں استادکرے، لیکن بوجہ
ضعفِ استعداد و کم توجہیٔ طلبہ یہ طریق بھی ناکافی ثابت ہوا کمامرمفصلاً۔ اس لیے اب اس کی ضرورت واقع ہوئی کہ عبارت بھی طالبِ علم پڑھے اور مقصود کی تقریر بھی وہی کرے اور جو کچھ اس کی تقریر میں کمی رہی اس کو استاد پورا کردے یا مشکل مقام کی تقریر کردے۔ چناں چہ مفصلاً اس کی ضرورت اوپر معلوم ہوچکی ہے۔ اس لیے حسبِ اقتضائے ضرورتِ زمانہ اگر اس طریق کو جاری نہ کیا جائے گا اور بدستور وہی طریقِ تدریس رہے گا تو علوم کے گم ہوجانے کا صرف احتمال ہی نہیں بلکہ قریب یقین کے ہے۔
مدرّسین سے گزارش:
اے حضرات ۔ُعلما۔َ و مدرّسین! آپ حضرات کی بلیغ توجہ کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے آپ اس طرف توجہ فرمائیں اور میرے ان بے سروپاجملوں میں غور فرمائیں۔ یہ ناکارہ بوجہ کم علمی بداستعدادی کے تحریراً یا تقریراً اپنے پورے مافی الضمیر ادا کرنے سے قاصر ہے، لیکن اگر آپ ذرا غور فرمائیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ فی الواقع اس کی سخت ضرورت ہے۔
کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ: