لیکن اصل میں مبنی حکم کا وہ نہ تھا اس لیے وہ حکم مرتفع نہیں ہوا۔ سو منصوصات میں تو کسی علت نکالنے کی حاجت ہی نہیں۔ البتہ اجتہادیات میں علت نکالی جاتی ہے مگرہم کو علت نکالنے کی لیاقت نہیں ہے، جو اس کے اہلِ تھے وہ گذر گئے۔ کیا پارلیمنٹ و جلسہ وضع قوانین کا
ممبر ہر قانون دان یا ہر دیہاتی بن سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قوانین کے اَسرار کا جاننا خاص ہی لوگوں کا کام ہے۔ پس ہر ایک کو اس کا دعویٰ زیبا نہیں۔ اس لیے یہ اعتراض بھی لغو ثابت ہوا۔
۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا شبہ:
ایک اعتراض مولویوں پر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ مخدوم بنے گھروں اور مدرسوں اور مسجدوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور قوم کی تباہی پر ان کو رحم نہیں آتا اور گھروں سے نکل کر گمراہوں کی دستگیری نہیں کرتے۔ لوگ بگڑتے چلے جاتے ہیں کوئی اسلام کو چھوڑ رہا ہے، کوئی احکام سے محض بے خبر ہے، لیکن ان کو کچھ پروا نہیں حتیٰ کہ بعضے تو بلانے سے بھی نہیں آتے اور آرام میں خلل نہیں ڈالتے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اعتراض اس وقت کسی درجہ میں لوگوں کے حق میں صحیح ہوسکتا تھا کہ تبلیغ اسلام و احکام اب بھی فرض ہوتی تب بے شک ضروری تھا کہ گھر گھر، شہر شہر سفر کرکے جاتے، یا کسی کو بھیجتے اور لوگوں کو احکام سناتے، لیکن اب تو اسلام و احکام شرقاً غرباً مشتہرہوچکے ہیں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے کانوں میں اصولاً و فروعاً اسلام نہ پہنچ چکا ہو، اور جو لوگ کسی قدر لکھے پڑھے ہیں ان کو تو بذریعہ رسائل مختلفہ مذاہب تک کا بھی علم ہے۔ اور اگر کسی مقام پر فرضاً کوئی احکام کا بتلانے والا نہ بھی پہنچا ہو تاہم اس مقام کے لوگ (اگر ۔ُکل نہیں تو بعض سہی) دوسرے مقامات پر پہنچے ہیں اور احکام سنے ہیں (اور ان بعض سے دوسرے بعض کو پہنچے ہیں)۔ بہرحال جن مقام کا ہم کو علم ہے ان میں سے کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اسلام و احکام نہ پہنچے ہوں۔
اور ۔ُفقہا۔َ نے ’’کتاب السیر‘‘ میں تصریح فرمادی ہے اور عقل میں بھی یہ بات آتی ہے جہاں اسلام و احکام پہنچ گئے ہوں وہاں تبلیغ واجب نہیں البتہ مندوب ہے۔ پس جب تبلیغ واجب نہیں تو اس کے ترک پر ملامت کیسی، اور اگر ترکِ مستحب پر یہ الزام ہے سو اول تو وہ محلِ الزام نہیں، دوسرے اس سے قطع نظر اگر ان لوگوں کو کوئی شغل ضروری نہ ہو تو کچھ گنجایش بھی ہے، لیکن جو لوگ اسلام کی دوسری خدمتیں کررہے ہیں وہ بھی جب ضروری کاموں میں لگ
رہے ہیں پھر گنجایش اس شبہ کی کہاں ہے۔ دوسرے جس طرح ۔ُعلما۔َ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان گمراہوں کے گھر پہنچ کر ہدایت و اصلاح کریں، خود ان گمراہوں کو یہ رائے کیو ںنہیں دی جاتی کہ فلاں جگہ ۔ُعلما۔َ موجود ہیں تم ان سے اپنی