علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی:
بعض منسوبین الی العلم علومِ دینیہ کو ذریعہ اپنے اغراضِ فاسدہ دنیویہ نفسانیہ کا بنالیتے ہیں جس سے وہ خود تو بدنام اور بے وقعت ہوتے ہیں مگر اپنے ساتھ تمام جماعت اہلِ علم کو بدنام اور بے اعتبار ٹھہراتے ہیں۔
چو از قومے یکے بیدانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
اگرچہ معترضین کی بے انصافی و کوتاہ نظری ہے کہ ایک پر سب کو قیاس کرکے سب پر ایک حکم لگادیتے ہیں۔ کیا اگر کوئی اناڑی عطائی خلافِ اصولِ طب کسی کا علاج کرے، یا کسی کو دھوکہ دے کر کچھ ٹھگ لے تو کیا ملک کے تمام ماہرین و سیر چشم اَطبا۔ّ کے کمالِ علمی و عملی کی نفی جائز ہوگی؟ ہرگز نہیں، لیکن عوام سے اس غلطی کا صدور زیادہ عجیب نہیں جب کہ منسوبین الی العلم سے اس سے بڑی غلطی یعنی علمِ دین کو آلۂ دنیا بنانے کا صدور ہوتا ہو، کیوں کہ علم ایک بہت بڑا سبب حامل علی العمل ہے۔ جب کثیر العلم اتنی بڑی غلطی کرے تو قلیل العلم سے زیادہ بعید نہیں، گو مطلق علم پر نظر کرتے ہوئے ایک درجہ میں بعید ضرور ہے اور وہ اغراض باوجود تعدد تکثیر کی دو کلیوں میں داخل ہیں: ایک طلبِ مال، دوسرے طلبِ جاہ۔
طلبِ مال کی چند صورتیں ہیں: بعضے ایسا کرتے ہیں کہ وعظ کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اور جگہ جگہ خاص اس غرض سے وعظ کہتے پھرتے ہیں کہ کچھ مال وصول ہو، پھر بعضے تو حیا و شرم کو بالکل بالائے طاق رکھ کر صریح سوال کرتے ہیں اور ان وعیدوں کو جان کر بھلا دیتے ہیں جو بلااضطرار مانگنے کے باب میں وارد ہیں۔ مثلاً ترمذی میں ہے:
عن حبشي بن جنادۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ : إن المسألۃ لا تحل لغنی ولا لذي مرۃ سوي إلا لذي فقر مدقع أو عزم مفظع، ومن سأل الناس لیکثر بہ مالہ کان خموشا في وجھہ یوم القیامۃ ورضفا یأکلہ من جھنم، فمن شاء
فلیقل ومن شاء فلیکثر۔1 بالخصوص علمِ دین کو آلہ اور ذریعہ بنانا موجب زیادہ وعید کا ہے۔ چناں چہ احمد اور ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے: عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ لَا یَتَعَلَّمُہٗ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ غَرَضًا مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرَفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔2 یعنی ریحہ۔اور بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ میں روایت کیا ہے: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یَتَأَکَّلُ بِہِ النَّاسَ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَوَجْھُہٗ عَظْمٌ لَیْسَ عَلَیْہِ لَحْمُہٗ۔3 اور ظاہر ہے کہ کوئی اضطراران کو نہیں ہے۔ دوسرے وجوہ حلال معاش کے موجود ہیں جن میں ایک وجہ حلال وہ بھی ہے جس کا قاعدہ بابِ اول کی دوسری فصل تحت آیت {لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا}4 میں مفصل مذکور ہوا ہے جس سے وعظ کی نوکری بطور مشاہرہ