شرعی کی تحصیل ہو وہ محمود ہے۔ مثلاً: رِبا کو شرع نے حرام کہا ہے اس کے لیے تدبیر استعمال کرنا گناہ ہے، اور جس جگہ رِبا مقصود نہ ہو مگر خود اجناس ہی قیمت میں متفاوت ہوں، لیکن اتحادِ بدلین کے سبب تفاضل ممنوع ہو اس جگہ حدیثِ مذکور کے موافق تصحیح کرلینا جائز اور مشروع ہے۔ یہاں تک یہ سب بیان ہوا ان اہلِ علم کا جو علومِ دینیہ کو آلۂ جلب مال کا بناتے ہیں۔
بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان:
اب آگے ان کا ذکر ہے جو علمِ دین کو طلبِ جاہ کا آلہ بناتے ہیں، اور اس کی چند صورتیں ہیں۔ بعضے لوگ اُ۔َمرا سے ملنے کا خاص دلچسپی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں اور خیال ان کا یہ ہوتا ہے کہ ان سے ملنے سے لوگوں میں عزت و وقعت و عظمت بڑھے گی۔ حالاں کہ تجربہ و تتبعِ خیالاتِ جمہور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عادت سے عام لوگوں میں کوئی وقعت نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمان اس کو اہلِ علم کے لیے عیب سمجھتے ہیں۔ ۔ُعلما۔َ کی عزت واقع میں بھی اور عام خیال میں بھی اسی ہی وضع پر رہنے سے ہوتی ہے جو اہلِ علم کی شان کے مناسب ہے۔ یعنی خدمتِ دین و استغناء عن الامراء اور خوش خلقی ۔ُغرَبا کے ساتھ، پس عامہ کی نظر میں تو کوئی وقعت نہیں ہوتی اور ان اُ۔َمرا کی نظر میں تو اس سے اچھی خاصی ذلت ہوتی ہے۔ وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ جلبِ مال کی طمع میں ہم سے خوشامد کے لیے ملتے ہیں، سو ان کی نظر سے بالکل ہی گر جاتے ہیں اور اگر کبھی ان کا دیا ہوا کچھ لے لیا تو رہی سہی وقعت بالکل ہی جاتی رہتی ہے۔ یہ اثر ان اُ۔َمرا پر ہوتا ہے، اور ایک اثر اُ۔َمرا و ۔ُغرَبا دونوں پر ہوتا ہے کہ ایسے ۔ُعلما۔َ سے تحقیقِ دین و استغنا کے باب میں بالکل اعتبار و اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ان کے وعظ، ان کے فتوے، ان کی تحریرات پر ذرا وثوق نہیں رہتا۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے شاید یہ دنیا داروں کی خوشامد میں ایسا کہتے ہیں۔ پس ان لوگوں کا علم محض غیر منتفع بہ ہوجاتا ہے۔ اور ایک اعتبار سے یہ لوگ ان حدیثوں کے مصداق ہوجاتے ہیں۔
عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَثَلُ عِلْمٍ لَا یُنْتَفَعُ بِہٖ کَمَثَلِ کَنْزٍ لَا یُنْفَقُ مِنْہٗ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔1
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ ؓ قَالَ: إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَا یَنْتَفِعُ بِعِلْمِہِ۔2
اور ایک اثر خود ان ۔ُعلما۔َ پر یہ ہوتا ہے کہ ان اُ۔َمرا کی صحبت سے اور ان کے منکرات پر انکار نہ کرنے سے (کیوں کہ اگر انکار اور منع کریں تو پھر ان سے لطفِ صحبت کہاں میسر ہوسکتا ہے) جانبین سے انقباض ہوجائے۔ اور راز اس میں یہ ہے