۴۔چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط:
بعض لوگ رقومِ چندہ میں اس طرح بے جا اخراجات اور خلافِ اذن تصرفات کرتے ہیں جیسے گویا ان کی ۔ِملک ہے۔ اس میں بہت احتیاط کرنا چاہیے۔ تفصیل اس کی خود واقعات میں غور کرنے سے معلوم ہوسکتی ہے۔
۵۔ کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے:
اکثر جگہ جہاں طلبہ کو لوگ ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں طلبہ کے لیے معیوب ہے کہ کسی کے گھر پر کھانا لینے جائیں کہ اس میں سخت تحقیر و اہانت ہے علم اور اہلِ علم کی۔ نیز اس میں ایک اخلاقی خرابی ہے وہ یہ کہ دوسرے سے مانگنے میں انقباض طبعی یعنی جھجھک نہیں رہتی دل کھل جاتا ہے، اور یہی انقباض طبعی حیا کی ایک بڑی فرد ہے جو مانع ہے انسان کو سوالِ مذلت سے۔ جب یہ نہ رہی تو اب اس کا سوال سے رکنا عقلاً ہوگا طبعاً نہ ہوگا۔ اور غرض ایک ایسی چیز ہے جو مانع عقلی کو بہت جلد رفع کردیتی ہے۔ ایسے وقت مانع طبعی ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وہ نہ رہی تواس شخص کو جب موقع ہوگا بے تکلف لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دے گا، تو گویا عمر بھر کے لیے اس کا ایک کمالِ فطری برابر ہوگیا۔ پھر جب اس شخص کی قدر و منزلت کسی کے دل میں نہ رہی تو اس کا وعظ و ارشاد کیا نافع و مؤثر ہوگا۔ ا س لیے میری رائے (جس پر میں پہلے مدرسہ جامع العلوم کان پور میں اور اب مدرسہ تھانہ بھون میں کاربند بھی رہا اور ہوں) یہ ہے کہ اس طریقہ کو بند کردیا جائے، جو شخص طالبِ علم کو کھانا دینا چاہے وہ مدرسہ میں بھیج دے اسی طرح دعوت میں بھی طلبہ کو نہ بھیجا جائے، جس شخص کو کھلانا ہو مدرسہ میں لاکر کھلادے۔ اس سے ان کی عزت بھی محفوظ رہے گی اور خود ان میں ایک شان استغنا و الوالعزمی و حیا کی پیدا ہوگی جس کا اثر لوگوں پر بہت اچھا ہوگا۔
اور ہر چند کہ پہلے بزرگوں نے طلبہ کے لیے اس کو گوارا رکھا ہے، لیکن اُس وقت کے عوام دنیادار اور اہلِ علم کو ذلیل نہ سمجھتے تھے۔ پس اس میں یہ مفسدہ نہ تھا، بلکہ وہ لوگ ان حضرات طلبہ کے آنے کو اپنے گھر کے لیے موجبِ برکت سمجھتے تھے اور خود طلبا کے کبر کا معالجہ بھی اس میں تھا اس میں کچھ مضائقہ نہ تھا۔ اور اب عوام کے حالات و خیالات اکثر بدل گئے اس لیے مفسدہ حادث ہوگیا، اور قاعدۂ شرعیہ ہے کہ جس امر میں مفسدہ و مصلحت دونوں ہوں وہ واجب الترک ہوتا ہے۔ رہا علاج کبر کا تو وہ د وسرے طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسا مقام ہو جہاں یہ مفسدہ تحقیر کا نہ ہو وہ اس منع