جاتا ہے۔
مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں:
تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ اب تک تدریس کا طریق یہ ہے کہ طالبِ علم اول عبارت پڑھتا ہے، اس کے بعد ۔ُمدرّس اس مقام کی شرح مع اس کے مالہ وماعلیہ ومافیہ کے بیان کرتا ہے۔ اس درمیان میں اگرکسی کو شبہ ہو تو وہ دریافت کرلیتا ہے۔ ۔ُمدرّس جواب دیتا ہے بس۔ مدرّسین اس کا قصد بھی نہیں فرماتے کہ طلبہ اس مقام کو سمجھ جائیں، بعض کا مقصود تو مدرسہ کا وقت پورا کرنا ہوتا ہے، اور بعض اپنی تقریر صاف کرنے کے لیے تقریر فرماتے ہیں، اور بعض اپنی اظہارِ لیاقت کے لیے صعوبت (مشقت) برداشت کرتے ہیں اور یہ خیال نہیں فرماتے کہ ہم نے جو اتنی دیر تک تقریر کی طلبہ کو اس سے کیا آیا سمجھے یا نہیں (الاماشاء اللہ)۔ اور یہی طریق ابتدائی کتب سے لے کر انتہا تک جاری رہتا ہے۔ سو میرے نزدیک یہ طریق اس
وقت مبتدیوں بلکہ متوسطین کے لیے بھی بالکل غیر نافع ہے۔ البتہ یہ ان طلبہ کے لیے نافع ہے جو منتہی ہوکر فاضلانہ استعداد حاصل کرچکے ہیں اور بڑے حضرات کے یہاں مستفید ہو رہے ہیں۔ اور مبتدیوں کے لیے تو نہایت ہی مضر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ قاعدہ عقلیہ ہے کہ جس قوت سے کام نہ لیا جائے گا اس قوت کو کبھی ترقی نہ ہوگی۔
دیکھ لیجیے! جس انجن یا جس مشین سے کام نہ لیا جائے وہ بے کار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسانی قویٰ کا حال ہے کہ جس قوت سے کام لیا جائے گا وہ قوت ترقی پذیر ہوگی، اور جس قوت سے کام نہ لیا جائے گا وہ رفتہ رفتہ سست اور ضعیف ہوکر کالعدم ہوجائے گی۔ وہذا ظاہر جدّا۔
طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے:
اسی طرح قوتِ فہم کا حال ہے کہ جب اس سے کوئی کام لینے والا ہوگا تو اس کو قوت ہوگی۔ اور کتبِ درسیہ پڑھنے کی غایت بھی یہی ہے کہ ملکۂ راسخہ اور استعداد کتب بینی و کتب فہمی کی حاصل ہوجائے۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ تقاریر یاد ہوجائیں۔ اساتذہ کی بتائی ہوئی تمام تقریریں نہ کسی کو یاد ہوئی ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں۔ پڑھتے پڑھتے ملکہ پیدا ہوجاتا ہے اور اسی سے کام لیا جاتاہے بلکہ ملکۂ کافیہ کے پیدا ہوجانے کے بعد پھر تعلیم کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ چوں کہ طلبہ آج کل خود کم توجہ