سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غایت ایسی دقیق نہیں جس میں تأمل سے کام لیا جائے، پھر اہلِ علم ۔َصرف سے کیوں رکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ دنیا کے نزدیک جو غایت ہے وہ ان صاحبوں کے نزدیک غایت ہی نہیں یعنی نام و نمود و شہرت و تفاخر وغیرہ، بلکہ غایت وہ ہے جس کے لیے مال موضوع ہے عقلاً و شرعاً، سو وہ بعض بعض مواقع پر دقیق و غامض ہوتی ہے کہ اس میں تأمل سے کام لیا جاتا ہے۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ جہاں ۔َصرف میں کمی کرتے ہیں تحصیل میں بھی کمی کرتے ہیں، اور یہ نہیں کہ ان کو زیادہ ملتا ہی نہیں۔ ہمارے چشمِ دید واقعات ہیں ان کو بہت بہت ملتا ہے اور وہ عذرِ انکار کردیتے ہیں کہ ہمارے پاس کافی ہے زیادہ کیا کریں گے۔ نیز اگر اتفاق سے ان کے پاس زیادہ سامان ہوجاتا ہے وہ اس سے متو۔ّحش ہوکر اپنے پاس سے جدا کردیتے ہیں۔ کسی جگہ تھوڑی سی تنخواہ ملتی ہے اور دوسری جگہ سے زیادہ پر بلائے جاتے ہیں مگر نہیں جاتے کہ زیادہ کیا کرنا ہے، تو کیا یہ بخل کے آثار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عاقل ہیں، ہر شے میں ضرورت پر نظر ہے، آمدنی میں بھی خرچ میں بھی۔
صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے:
اور کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ اخیر کا واقعہ تو ظاہری مولویوں میں نہیں دیکھا جاتا صرف درویشوں کے ساتھ خاص ہے۔ سو اول تو پہلے دو واقعے ہی جواب کے لیے کافی ہیں تیسرا نہ سہی۔ دوسرے مولویوں سے مراد عالم باعمل ہے آپ اس کا نام درویش رکھ لیجیے، جو ایسا نہ ہو وہ ہمارے نزدیک مولویوں میں داخل نہیں صرف لفا۔ّظ ہے۔ ہم صرف عربی زبان جاننے والے
کو مولوی نہیں کہتے۔ مصراور بیروت میں بہت سے عیسائی اور یہودی عربی دان ہیں، تو کیا ہم ان کو مقتدائے دین کہیں گے؟ اور یہاں ہی سے جواب ہوگیا ایک دوسرے شبہ کا بھی کہ بعضے مولوی اول کے دو واقعے سے بھی معرّا ہوتے ہیں، پرائے مال میں ذرا احتیاط نہیں کرتے، دوسرے کے حقوق کو ٹالتے ہیں، کسی کی کتاب لے کر نہیں دیتے یا بے پروائی سے ضائع کردیتے ہیں۔ سو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ یہ سب اقتضائے علم کے خلاف ہے ایسا شخص ہمارے نزدیک ۔ُعلما۔َ میں داخل نہیں۔ پھر یہ کہ جس شخص میں یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں اکثر اُن کو حقوق کے درپے بھی نہیں دیکھا وہ ان میں بھی لاابالی ہوتے ہیں، ان پر بخل کا شبہ ہی نہیں واقع ہوتا۔ جو جواب دیا جائے گو اس سے بڑھ کر اس میں عیب ہو یعنی عَدْمُ مُبَالَاۃٍ فِي الْحَقِّ الْوَاجِبِ۔۔1 (1 حق واجب میں لاپرواہی) مگر اس وقت کلام شبہ بخل میں ہے۔