میت کے ورثہ اور اس کے بلوغ اور رضا کی تحقیق نہیں کی جاتی۔
۲۔ دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے:
چندہ دوامی میں جو آخر سال میں بقایا واجب رہ جاتا ہے میرے نزدیک اس بقایا کا طبع کرنا امر منکر معلوم ہوتا ہے۔ اس میں اظہار ہے صاحبِ چندہ کی نادہندی و خلفِ وعدہ کا۔ میں نے مدرسۂ کان پور میں اس کی اس طرح اصلاح کی ہے کہ روئداد میں صرف وصول شدہ چندہ لکھاجاتا تھا او ربقایا کو مدرسہ کے خاص رجسٹر میں محفوظ رکھا جاتا تھا جس کی یاددہانی بذریعہ خط کے خاص طور پر کردی جاتی تھی۔ اور میرے نزدیک یاددہانی میں ضروری ہے کہ لزوم و تاکد کے الفاظ نہ ہوں بلکہ تصریح کردی جائے کہ آپ کو اطلاع کی جاتی ہے، اگر رغبت ہو بھیج دیجیے ورنہ آپ آزاد ہیں۔ اور یہ کبھی خیال نہ کیا جاوے کہ اس طرح پھر کون دیتا ہے۔ یہ سب خیال غلط ہے۔ جتنا آنا ہوتا ہے آتا ہے اس کا کامل تجربہ ہوچکا ہے ہرگز وسوسہ نہ کیا جائے۔
۳۔ صحیح حیلۂ تملیک:
بعضی رقوم جو واجب التملیک مدرسہ میں آتی ہیں اور ضرورت ہوتی مدرسہ کے مدات غیر واجب التملیک میں، تو اس میں ایک حیلہ تملیک کا کیا جاتا ہے جو سب کو معلوم ہے، لیکن چوں کہ جانبین کو معلوم ہے کہ اس میں تملیک حقیقتاً ہرگز مقصود نہیں۔ جس کا ایک امتحان بھی ہے اگر وہ مسکین بعد قبضہ کے پھر داخل مدرسہ نہ کرے تو اس وقت دیکھئے کس قدر بے لطفی و بدمزگی ہوتی ہے بلکہ عجب نہیں کہ اس سے چھین لیا جائے یا تمام عمر کے لیے اس کی صورت سے بے زار ہوجائیں، تو اگر وہ تملیک حقیقی تھی تو پھر اس جبر کے کیا معنی؟ اور اگر تملیک نہیں تو واجب یعنی زکوٰۃ وغیرہ ادا نہیں ہوا تو معطی نے مہتمم کو امین سمجھ کر وہ رقم اس کے سپرد کی اور اس نے اس طرح اس کو ضائع کیا۔ اگر مدات غیر واجب التملیک ہی میں صرف کرنا ہو تو اس کی ایک اور صورت اس سے بہتر ہے گو وہ بھی خلوص کے خلاف ہے مگر قواعد کے خلاف نہیں۔ وہ یہ کہ کسی مسکین کو مشورہ دیا جائے کہ وہ مثلاً بیس پچیس روپے کسی سے قرض لے کر مدرسہ کے اس مد ضروری الوقت میں تبرعاً دے دے اور پھر مہتمم وہ رقم واجب التملیک اس مسکین کو بتملیکِ حقیقی بغرض اعانت ادائے قرض کے دے دے پھر قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے اور اگر نہ دے تو اس سے چھین لینا جائزہے۔