بعض واعظین کی کوتاہیاں:
بقیہ جو کوتاہیاں وعظ کہنے کے متعلق ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ وعظ کہہ کر نذرانہ لینا یا پہلے سے ٹھہرالینا جس کا ایک اثر یہ ہے کہ اس وعظ کا کسی پر اثر نہیں ہوتا۔ دوسرا اثر یہ ہے کہ واعظ اظہارِ حق سے بخوفِ فوتِ مال رکتا ہے اور تنخواہ لے کر وعظ کہنا اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسی باب کی دوسری فصل میں اس کا کچھ مبسوط بیان ہوا ہے۔
۲۔ وعظ میں غیرضروری یا مضرِ عوام مضامین مثل دقائقِ تصوف و مسائلِ عربیہ بیان کرنا۔
۳۔ مغلق تقریر وعظ میں کرنا۔
۴۔ کسی خاص شخص پر وعظ میں تعریض کرنا جس سے فتنہ کا باب مفتوح ہوتا ہے۔
۵۔ وعظ میں کسی کی فرمایش کے تابع بن جانا ونحو ذلک۔
تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف:
اس میں بھی چند کوتاہیاں ہوتی ہیں:
۱۔ غیر مفید فنون میں تصنیف کرنا۔
۲۔ رد و قدح و مجادلہ کو اپنی تصنیف کا معظم مقصود بنالینا۔
۳۔ ایسے مباحث لکھنا جن کی ضرورت عوام کو نہ ہو یا اس کو مشوّش کرنے والے ہوں، مثل نازک مسائلِ تصوف یا کلام کے، اور اگر خواص کو نفع پہنچانے کی ایسی ہی ضرورت ہو تو خاص زبان میں مثلاً عربی میں لکھے کہ عوام الناس کی نظر تک نہ پہنچے۔
۴۔ تصنیف کرکے حقِ تصنیف بیع کرنا۔
۵۔ محض تجارت کے لیے عوام کے مذاق پسند تصنیف کرکے اس سے روپیہ حاصل کرنا۔
فتویٰ دینے میں کوتاہیاں:
اصلاحات متعلقۂ افتا۔ اس میں یہ کوتاہیاں ہیں: