ان لوگوں کے اس عمل کے لیے تو جاہ علتِ غائی ہے اور بعض کے اسی عمل کے لیے جاہ علتِ غائی نہیں ہوتی بلکہ علتِ فاعلی ہوتی ہے، یعنی جاہ سبب ہوتا ہے مسبّب نہیں ہوتا۔ اور وہ وہ لوگ ہیں جو واقع میں اپنے کو مقدس اور دوسروں کو خطا وار گناہ گار سمجھتے ہیں، اس لیے ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو بہ نسبت ریاکار کہنے کے متکبر کہنا زیادہ بجا ہے۔ اور یہ تکبر دنیاداروں کے تکبر سے بھی اقبح و اشنع ہے، کیوں کہ ان لوگوںکو بہ نسبت دنیاداروں کے زیادہ علم ہے۔ زیادہ علم کے ساتھ بدعملی عنداللہ زیادہ مبغوض ہے۔ وَلَنِعْمَ مَا قِیْلَ ؎
فَإِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِيْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ
وَإِنْ کُنْتَ تَدْرِيْ فَالْمُصِیْبَۃُ أَعْظَمُ
ان صاحبوں کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ العبرۃ للخواتیم۔ مصرع
تایار کرا خواہد و ملیش بکہ باشد
اور یہ لوگ اس کو استغنا سمجھتے ہیں، مگر استغنا اور تکبر میں زمین آسمان کا فر ق ہے جو بالکل ۔ّمبین اور ظاہر ہے۔
شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت:
بعضے لوگ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے مجادلہ اور رد و قدح کی عادت اختیار کرلیتے ہیں اور شب و روز اسی مشغلہ میں رہتے ہیں۔ پھر اس کا غلبہ یہاں تک ہوتا ہے کہ غیرضروری امور میں بھی بدون نزاع کے نہیں رہتے۔ پھر اکثروں کی تو غرض اس سے تحصیلِ جاہ ہوتی ہے جس کی مذمت اس حدیث میں وارد ہے:
عَنْ کَعَبِ بْنِ مَالِکٍ قَال: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِيَ بِہِ الْعُلَمَائَ أَوْ لِیُمَارِيَ بِہِ السُّفَھَائَ أَوْ یَصْرِفَ بِہِ وُجُوْہَ النَّاسِ إِلَیْہِ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ النَّارَ۔ 1
بعض اوقات اس کا یہاں تک اثر ہوتا ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد بھی اپنے باطل پر اصرار کیے جاتے ہیں کہ بات ہیٹی نہ ہوجائے۔ میں نے ایک مناظر کا فتویٰ ایک قطعی رضاعی رشتے میں حلتِ نکاح کا دیکھا ہے کہ ابتدا میں تو ان سے غلطی ہوگئی تھی مگر پھر اپنی بات کی پچ پڑ گئی اور باوجود سارے جہاں کے ۔ُعلما۔َ کے خلاف کرنے کے اور تحریراً و تقریراً تنبہ کرنے کے ہرگز رجوع نہ کیا، اور بعض ثقات سے مسموع ہوا کہ ان بزرگ نے اپنے ایک معظم سے یہ کہا کہ اب کیا کروں قلم سے نکل گیا ہے اب تو تائید ہی کرنا ضروری ہے۔ اور بعض خود اس کو مقصود اور دین کا کام سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس کی مذمت اس حدیث میں ہے: