فِيْ حُقُوْقِ الْعِلْمِ عَلَی الْعَوَامِ مِنْ أَھْلِ الإِْسْلَامِ
پہلی فصل:
دین کے اجزا:
بعض لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ علمِ دین کا تعلق صرف نماز و روزہ سے ہے، اور اس کے لیے چند اردو رسائل مسائل کا یا معمولی مولویوں کا وجود کافی ہے۔ جس کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں۔ اور وجہ اس سمجھنے کی یہ ہے کہ اصل میں ان صاحبوں کو یہی خبر نہیں کہ دین کے کیا کیا اجزا ہیں۔ اس لیے دین کو صرف روزہ، نماز میں منحصر سمجھ رکھا ہے اور اول غلطی یہی ہے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ دین کے اجزائے کلیہ پانچ ہیں: عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، تہذیبِ اخلاق یا تربیتِ نفس۔ چناں چہ دلیل و تفصیل اس دعویٰ کی میرے رسالہ ’’تعلیم الدین‘‘ کے خطبہ میں موجود ہے (اور یہ رسالہ انہی پانچ اجزا کی مختصر شرح ہے)۔ اور جو شخص ہر وقت اپنے جمیع اقوال و افعال و احوال کو تفصیل وار دیکھتا رہے گا اور ہر جزیئے کے متعلق احکام شرعیہ کی تفتیش کی فکر میں ہوگا، اس کو معلوم ہوگا کہ نہ مختصر رسالے اس کے لیے کافی ہیں اور نہ معمولی مولوی۔ اس میں کس درجہ وسعت ہے اور اس کے ماہر کس قدر قلیل ہیں، اور کس درجہ جماعت کی اور حاجت ہے جن کو اس کا احاطۂ ضروریہ حاصل ہو۔ پھر اس جماعت کی تیاری کے لیے کس قدر سامان اور اہتمام کی ضرورت ہے اور موجودہ سامان اس کے مقابلہ میں کتنا کم ہے۔
دوسری فصل:
علمِ دین کے دو مرتبے:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مولوی بننے میں اس قدر وقت صرف ہوتا ہے کہ پھر علومِ معاش کے تحصیل کی گنجایش نہیں رہتی۔ پھر اگر علومِ معاش کو حاصل نہ کیا جائے اور اولاد کو مولوی بنادیا جائے تو پھر کھائیں پئیں کہاں سے؟ پس اس کا انجام بجز ذلت او رپریشانی کے اور کچھ نہیں ہے اس لیے مولوی بننا ذاتی و قومی ترقی کو مضر ہے۔ ان صاحبوں سے اس میں چند غلطیاں ہوئی ہیں۔