تھا۔ یہ تو وعظ کے ذریعہ سے کمانے والوں کا بیان تھا جس کے متعلق یہ بھی ایک تجربہ اور استقرا ہے کہ اکثر ایسے لوگ باقاعدہ عالم اور ذی استعداد بھی نہیں ہوتے، ورنہ کمالِ علمی کے لیے غیرت اور حمیت خواصِ لازمہ سے ہے، اس سے ایسی بے حمیتی کا کام نہیں ہوسکتا۔ اور بعضے صریح سوال نہیں کرتے مگر ان کے طرز و انداز سے ان کا سائل ہوجانا معلوم ہوجاتاہے۔ ان کا حکم بھی مثل صریح سائلوں کے ہے گو وجہ دلالت دونوں جگہ مختلف ہو مگر مدلول تو واحد و مشترک ہے۔
مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم:
اور بعضے بذریعۂ وعظ یا بلاوعظ محض ملاقات و خاص خطاب سے خود اپنی حاجت کے لیے سوال نہیں کرتے مگر کسی مدرسہ یا انجمن کے لیے چندہ طلب کرتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ واقع میں وہ مدرسہ یا انجمن نافع اور ضرورت پر مبنی ہے اور یہ شخص محض دینی منفعت اہلِ اسلام کو پہنچانے کے لیے بلاجبر و بلاکسی خداع و تلبیس کے اس میں شریک ہونے کی ترغیب دیتا ہے، پھر خواہ اسی قاعدۂ مذکورہ بابِ اول فصلِ ثانی کے طور پر اس کی تنخواہ بھی اس مدرسہ یا انجمن سے ملتی ہے۔ یہ صورت تو ہماری اس فہرست ۔ُطرقِ مذمومہ طلبِ مال سے خارج و مستثنیٰ اور عموم مفہوم آیت {ہٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج} میں داخل ہے، جیسا بابِ اول فصلِ ثانی کے آخر میں مذکورہے۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ نہ اس انجمن یا مدرسہ کا انعقاد یا افتتاح اس غرض سے ہوا ہے کہ اپنا گذر ہو، اپنی بسر کی ایک صورت نکلے اور اس کا نہ ہوناکچھ مضر نہیں، یا یہ کہ وہ ضروری ہو مگر اس شخص کی نیت خاص اپنا دنیوی نفع ہو تو گو اس انجمن کی خدمت و ابقا کو ضروری کہا جائے گا مگر اس شخص کے لیے یہ شیوہ حلال نہ ہوگا۔ مطلقاً اور خصوص جب کہ طلبِ چندہ میں شرمانے سے دبائو ڈالنے سے بھی کام لیتا ہو، اس وقت مضاعف گناہ ہوگا بدلیل حدیثِ بیہقی و دارقطنی کے قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : أَلَا لَا تَظْلِمُوْا، أَلَا لَا یَحِلُّ مَالَ امْرِیٍٔ إِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِّنْہٗ۔1
بعض کو اس میں یہ غلطی ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کہ ہماری کیا وجاہت اور دبائو ہے، تو جو شخص دے گا خوشی ہی سے دے گا حالاں کہ مشاہدہ اس کی تکذیب کرتا ہے، اس کا حال دینے والے سے معلوم ہوسکتا ہے۔ جب وہ ان بزرگ کے کہنے کے بعد کچھ دے چکے کوئی تیسرا آدمی جو اس سے بے تکلف ہو اس سے قسم دے کر پوچھے کہ تو نے خوشی سے دیا ہے یا ناخوشی سے، بہت آسانی سے اس کا فیصلہ ہوجائے گا۔