ایک اس وقت ہم لوگ ہیں کہ ہمارے سامنے تحصیلِ علم کے سب سامان موجود ہیں۔ اساتذہ شفیق، کتابیں صاف خوش خط، مزین محشی، دو وقتہ کھانا پکاپکایا تیار، رہنے کے لیے ایسے کمرے کہ بعضے رئیسوں کو بھی مسیر نہیں، غرض تمام اسباب تحصیلِ علم کے مہیا اور حالت ہماری یہ ہے کہ نہ کتاب کی طرف توجہ ہے نہ اساتذہ سے انس ہے نہ شوق ہے نہ طلب ہے نہ مطالعہ ہے نہ تکرار ہے نہ وہ رنگ علمی ہے۔ کتابیں ختم کرلیں گے، دستار فضیلت زیبِ سر ہوجائے گی، لیکن استعداد کی یہ حالت ہے کہ اِملا تک صحیح نہیں، عبارت صحیح نہ پڑھ سکتے، نبض اور نبذ میں فرق نہیں کرسکتے۔ (الاماشاء اللہ)
طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ:
پھر ہمارے اس بداستعدادی او رناقابلیت کے جو ثمرات ہیں وہ مشاہدہیں کہ ایسے ایسے افراد جب ہمارے مدارس سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں تو ان کو لیاقت و استعداد تو ہوتی نہیں، تدریس کی قوت نہیں، افتا کا سلیقہ نہیں یا تو وعظ گوئی کو اپنا پیشہ بناتے ہیں اور اس میں بھی غلطیاں کرتے ہیں یا کسی مسجد میں امام بنتے ہیں، اور اگر کہیں تدریس کے لیے بھیج دیے گئے تو وہاں بے آبروئی ہوتی ہے۔ ایسے ایسے نتائج کو دیکھ کر عام لوگ کم عقل سمجھتے ہیں کہ علمِ دین پڑھنے کا نتیجہ بس یہی ہے کہ یا تو وعظ کہہ کر پیٹ پالو یا کسی مسجد کی امامت سنبھالو۔ اس لیے
پختہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو علمِ دین نہ پڑھائیں گے اور اپنی ناحقیقت شناسی سے یہ نہیں جانتے کہ یہ علم کا نتیجہ نہیں ہے یہ طلبہ کی کم ہمتی کا ثمرہ ہے۔
عو ام کا غلط نظریہ:
اب میں اپنی عنان تقریر کا ان عوام کی طرف رخ کرکے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے مان لیا کہ ا س وقت علم کا یہی نتیجہ ہے، لیکن بہت زور سے للکار کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ علمِ دین کی طرف ہر حالت میں خواہ اس میں مشغول ہونے سے استعداد اور کمال حاصل ہو یا نہ ہو، مائل ہونا اور برائے نام بھی اس کی طلب ہونا بلکہ دائرہ کو وسیع کرکے کہا جاتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ میں بے کار ہو کر رہنا لاکھوں، کروڑوں درجے انگریزی میں مشغول ہونے سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ گو لیاقت اور کمال نہ ہو، لیکن کم از کم عقائد تو فاسد نہ ہوں گے۔ اہلِ علم سے محبت تو ہوگی اگرچہ کسی مسجد کی جاروب کشی ہی میسر ہو۔ یہ جاروب کشی اس انگریزی میں کمال حاصل کرنے اور وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بننے سے کہ جس سے اپنے عقائد فاسد ہوں اور ایمان