متوجہ نہ ہوگا۔ اور اگر یہ شبہ متوسط درجہ والوں یا غیر متموّل لوگوں کو ہے تو جواب ان کا قرآن مجید میں موجود ہے:
{لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِز یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِج تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْج لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاط وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌO}1
جس سے ایک قاعدہ مفہوم ہوتا ہے جس کو ۔ُفقہا۔َ نے سمجھ کر اس پر بہت فروع متفرع کیے ہیں۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کی منفعت کے لیے محبوس ہوا اس کا نفقہ اس پر واجب ہوتا ہے۔ نفقہ زوجہ کا زوج پر، ۔ُقضاۃ و وُلاۃ کا نفقہ بیت المال میں جس کا حاصل وجوب جمیع مسلمین پر ہے اسی قاعدہ پر متفرع ہے۔ پس جواب کی تقریر یہ ہوئی ہے کہ جب یہ جماعت خدمتِ دین کے لیے جو مدلول ہے {فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} کا، محبوس اور وقف ہے جو مدلول ہے {اُحْصِرُوْا} کا، تو ان کے حوائج کی کفایت کی قدر جو مدلول ہے ۔ُفقر۔َا کا، ان کا حق مسلمانوں کے ذمہ واجب ہے جو مدلول ہے لام استحقاق کا۔ تو جمہور مسلمین کو چاہیے کہ ان کے مصارف کی کفالت کریں خواہ تعیین کے ساتھ جیسے مدرسین و واعظین کی تنخواہ، خواہ بلاتعین جیسے متوکلین کی خدمت۔ پس وہ شبہ منقطع ہوگیا۔ اور اس آیت سے علاوہ فائدہ مذکورہ اور بھی چند فوائد معلوم ہوئے جن کو اس بحث میں گو دخل نہیں مگر تعلق ہے اس لیے ذکر کیے دیتا ہوں۔
ایک یہ کہ ایسی جماعت کو ذرائعِ تحصیلِ معاش میں بالکل مشغول نہ ہونا چاہیے {لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِز } 1 اس پر دلالت کررہا ہے۔ اور اس سے یہ شبہ بھی جاتا رہا جو عوام الناس ۔ُعلما۔َ پر دنیوی معاش میں اپاہج ہونے کا الزام دیتے ہیں، اور ثابت ہوگیا کہ بایں معنی اپاہج ہونا ضروری ہے۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ ایک شخص سے دو کام ہوا نہیں کرتے، خصوصاً جب کہ ایک کام ایسا ہو کہ ہر وقت اس میں مشغول ہونے کی ضرورت ہو بالید یا باللسان یا بالقلب۔ اور خدمتِ دین ایسا ہی کام ہے اور تدریسِ علومِ دینیہ یہ ذرائع معاش میں داخل نہیں بلکہ وہ تنخواہ بوجہ خدمتِ دین میں محبوس ہونے کے ہے، مگر تعیین کے ساتھ ہے اور تعیین مصلحت قطعِ نزاع کے لیے ہے۔
ایک یہ کہ ایسے لوگوں کو کسی دنیادار کے سامنے اپنی حاجت پیش نہ کرنا چاہیے بلکہ اغنیا کی طرح مستغنی رہیں {یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِج } 2 اس پر دال ہے۔
ایک یہ کہ اموال کا سوال کسی سے نہ کرے۔ یدل علیہ {لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا}3 چندہ کی ترغیب اس میں داخل نہیں، وہ دعا الی الخیر ہے۔ اس میں اور سوال میں یہ آیت فرق بتلارہی ہے: {لَا یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ} إلی قولہ {ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج}4 ایک یہ کہ گو وہ سوال نہ کریں مگر دوسروں کو چاہیے کہ اس کا تجسس رکھیں اور فراست و قرائن سے پہچان کر ان کی خدمت کریں یدل علیہ قولہ تعالٰی: {تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْج}5 ایک یہ کہ ان کی خدمت کرکے احسان نہ رکھیں