پیشاب اور دونوں مرضیں اسی زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے میں نے اپنا دعویٰ مامور من اﷲ ہونے کا شائع کیا۔ میں نے ان کے لئے دعائیں کیں۔ مگر منع میں جواب پایا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰)
۵… ’’دن کے وقت ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کا میرا بے حس ہوگیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی۔ مجھے خیال گذرا کہ یہ فالج کی علامت ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۶۷)
۶… ’’ایک دفعہ مجھے مرض ذیابیطس کے سبب سے بہت تکلیف ہوئی۔ کئی دفعہ سو سو مرتبہ پیشاب آتا تھا اور دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہوگئے جس سے کاربنکل کا اندیشہ تھا۔‘‘ (تذکرہ ص۳۸۲ طبع سوم)
۷… ’’میں نے کئی دفعہ بیماریوں میں آزمایا کہ پیشاب باربار آرہا ہے۔ دست بھی لگے ہیں۔ آخر خدا سے دعا کی صبح کو یہ الہام ہوا۔ ’’دعاء ک مستجاب‘‘ اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی۔‘‘ (تذکرہ ص۴۶۶، طبع سوم)
۸… ’’کھانسی کی شدت بہت ہوتی تھی اور بعض وقت حالت جان کندنی کی سی ہو جاتی تھی اور کوئی امید زندگی کی باقی نہ رہتی تھی۔‘‘ (البدر ج۳ نمبر۸، ملفوظات ج۶ ص۳۲۹)
۹… ’’ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے درد گردہ سخت پیدا ہوگئی۔‘‘ (تذکرہ ص۴۹۴، طبع سوم)
۱۰… ’’عرصہ تین چار ماہ سے میری طبیعت نہایت ضعیف ہوگئی ہے۔ بجز ووقت ظہر اور عصر کی نماز کے لئے بھی نہیں جاسکتا اور اکثر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں اور ایک سطر بھی کچھ لکھوں یا فکرکروں تو خطرناک درد سر شروع ہوجاتا ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔ جسم بالکل بیکار ہو جاتا ہے اور جسمانی قویٰ ایسے مضمحل ہوگئے ہیں کہ خطرناک حالت ہے۔ گویا مسلوب القویٰ ہوں اور آخری وقت ہے۔ ایسا ہی میری بیوی دائم المریض ہے۔ امراض رحم وجگر دامنگیر ہیں۔‘‘
(تذکرہ ص۶۱۷)
مرزاقادیانی نے ان تمام عوارض کا علاج کرایا۔ لیکن شفا نہ ہوئی۔ آرام نصیب نہ ہوا اور ان کی بیوی نصرت جہاں بیگم بھی باوجود سخت کوشش کے دائم المریض ہی رہی اور لطف یہ ہے کہ اپنے خلیفہ حکیم نور الدین ایسے یکتائے زماں طبیب کی رفاقت بھی کارگر نہ ہوئی اور حکیم صاحب کی خدمت سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس لئے کہ خدا کو منظور تھا کہ ہر پہلو سے مرزاقادیانی کی تکذیب ہو