بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
الحمدﷲ رب العالمین وافضل الصلوٰت علیٰ افضل المرسلین خاتم النبیین محمد الذی لا نبی بعدہ وعلیٰ اہل بیتہ امہات المؤمنین وعلیٰ اصحابہ الذین ہم ائمۃ المؤمنین وسادۃ المسلمین وعلیٰ ذریتہ الطیبۃ اجمعین وعلیٰ آلہ المشتمل علی کل مؤمن الیٰ یوم الدین۰ اما بعد!
اﷲتعالیٰ نے نوع انسانی پیدائش کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائی اور انہیں تاج نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر حوا علیہا السلام کو پیدا کر کے ان کی زوجہ بنایا اور ان کی نسل دنیا میں پھیلائی جو آدمی کہلائی۔ حضرت آدم علیہ السلام اﷲ کے نبی تھے۔ انہوں نے اپنی اولاد کو دین اسلام سکھایا۔ ایمان اور اعمال صالحہ، عبادت وطاعت الٰہی کی تعلیم دی۔ گناہوں سے بچنے اور مسلم یعنی اﷲتعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہنے کا حکم دیا اور اس کا طریقہ سکھایا۔ اس کے ساتھ تمدن کے بھی ضروری طریقے مثلاً لباس تیار کرنے، کھانا پکانے، جانور پالنے وغیرہ کے طریقے سکھائے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد ان کی اولاد کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے اور ان پر کتابیں نازل فرمانے کا انتظام فرمایا گیا۔ اس نظام ہدایت کی اطلاع حضرت آدم علیہ السلام کو بذریعہ وحی فرما کر ان کی اولاد کو تنبیہ وہدایت فرمائی گئی کہ: ’’یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ واصلح فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون۰ والذین کذبوا بایتنا واستکبروا عنہا اولئک اصحاب النار ہم فیہا خالدون (الاعراف:۳۵،۳۶)‘‘ {اے اولاد آدم اگر تمہارے پاس تمہاری جنس سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیتیں سنائیں تو جو شخص صلاح وتقویٰ اختیار کرے گا (یعنی) ان پر ایمان لاکر ان کی پیروی کرے گا تو ایسے لوگوں کے لئے کوئی ڈر نہیں اور نہ وہ رنجیدہ ہوںگے (یعنی آخرت) اور ہماری آیتوں کی تکذیب اور ان سے کرنے والے جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔}
یہ ہدایت حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو حضرت آدم علیہ السلام ہی کے زمانے میں کی گئی تھی۔ اس وجہ سے ان کے بعد بکثرت انبیاء آنے والے تھے۔ اسی لئے ’’یا بنی آدم‘‘ (اے اولاد آدم) فرماکر خطاب فرمایا۔ کیونکہ اس وقت انسانوں کی اس جماعت کا کوئی خاص لقب