۴… چوتھی بات یہ کہنا ہے کہ خاتم النبیینﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کے متعلق جو پیشین گوئی فرمائی ہے اس میں ذرہ برابر بھی ابہام نہیں۔ آنحضورﷺ نے اس مسئلہ کی اہمیت کا حق ادا فرمادیا اور اس وقت کے احوال وواقعات نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصاف کا ایسا واضح نقشہ کھینچ دیا ہے کہ کسی سمجھ دار آدمی کو اشتباہ باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ جس وقت ممدوح الشان نزول فرمائیں گے اس وقت اہل ایمان کے سامنے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ بات روشن ہو جائے گی کہ یہی حضرت مسیح ہیں۔ جن کے نزول کی خبر سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے دی تھی۔ جو شخص اس مسئلہ کے متعلق احادیث پر نظر کرے گا اسے کسی دوسرے شخص پر مسیح موعودہونے کا شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ مثیل مسیح نام کے کسی عنقاء کو تلاش کر سکتا ہے۔ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے چند علامات واحوال جو حدیث میں وارد ہوئے ہیں درج ذیل ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول مسیح دجال کے خروج کے بعد ہوگا۔ یہ دجال اکبر ایک شخص معیّن ہوگا نہ کہ کوئی قوم۔ یہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر ک،ف،ر تحریر ہوگا۔ یہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا۔ اس سے عجیب وغریب خوارق عادات سرزد ہوںگے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد عام طریقہ سے نہ ہوگی۔ یعنی دوبارہ کسی عورت کے بطن سے پیدا نہ ہوںگے۔ بلکہ حالت شباب ہی میں ایک خارق عادت اور معجزانہ طریقہ سے آسمان سے بیت المقدس کے منارے پر اتریں گے۔ جہاں تک ان کی سانس پہنچے گی وہاں تک کوئی کافر زندہ نہ بچے گا۔ دجال انہیں دیکھ کر راہ فرار اختیار کرے گا۔ مگر اسے باب لد (واقع فلسطین) میں اپنے نیزے سے واصل جہنم کر دیں گے۔ اس وقت یہود کو شکست عظیم ہوگی اور چن چن کر قتل کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے پناہ لے گا تو پتھر مسلمان کو آواز دے گا کہ یہاں یہ یہودی چھپا ہوا ہے۔ اسے قتل کر دو۔ یہ اور اس قسم کی بہت سی علامتیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد وغیرہ حدیث کی معتبر کتابو ں میں مندرج ہیں۔ انہیں دیکھنے کے بعد کوئی احمق ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ مسیح سے مراد مثیل مسیح ہے یا اس قسم کی کوئی شخصیت پیدا ہوچکی ہے۔
ہر سمجھدار اور منصف مزاج اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ بلاشبہ آیات احادیث میں نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خبر سو فیصد حقیقت ہے۔ جس میں مجاز کا شائبہ نہیں ہے اور مثیل مسیح ہونے کا ہر مدعی کذاب، مفتری، مرتد اور ابدالآباد جہنم میں رہنے کا مستحق ہے۔
تمت باالخیر!