یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صلیب مسیح علیہ السلام کا عقیدہ موجودہ محرف مسیحیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو یہود کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مسیحیوں میں رائج ہوگیا۔ اسی پر عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے۔ جس نے اس قوم میں آخرت فراموشی کا مرض پیدا کر دیا۔ مسیح علیہ السلام کا تشریف لانا خود اس عقیدہ باطلہ کی صلیب دینے کے مرادف ہے۔ اس برہان جلی بلکہ مشاہدے کے بعد ان ضالین اور کحجرو لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور اسلام محمدیﷺ قبول کرنا ان کے لئے ضروری ولازم ہوجاتا ہے۔
منکرین ختم نبوت کے مغالطے
اس بات کی وضاحت باربار کی جاچکی ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ انسان کے فطری رجحان سے ہم آہنگ اور دین کی ایک بدیہی اور ضروری حقیقت ہے۔ اگر اس کی ایک دلیل بھی موجود نہ ہو تو بھی اس کی حقیقت وصداقت آفتاب نصف النہار کی طرح روشن اور ثابت رہے گی۔ جب تک اس کے خلاف کوئی برہان جلی نقلی وشرعی قائم نہ ہو۔ چہ جائیکہ اس کی تائید میں بکثرت عقلی ونقلی براہین قاطعہ اور دلائل قاہرہ قائم ہیں۔ جیسا کہ پچھلے ابواب سے روشن ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بار ثبوت درحقیقت ان لوگوں پر ہے جو سلسلہ نبوت کے جاری رہنے کے مدعی ہیں اور اس طرح محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین یعنی آخری نبی ورسول تسلیم کرنے سے گریز اور انکار کرتے ہیں۔ انہیں یہ ثابت کرنا چاہئے کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد بھی کسی نبی کی بعثت ہوئی یا ہوگی یا بالفاظ دیگر سلسلہ نبوت اب بھی جاری ہے۔ دلیل نقل شرعی، قطعی اور یقینی ہونا لازم ہے۔ اس لئے کہ عقیدہ خصوصاً اتنا اہم عقیدہ جس پر اسلام وکفر اور جنتی وجہنمی ہونے کا دارومدار ہو۔
دلیل قطعی کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا۔ محض عقلی دلیل بھی اس کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے کہ عقائد کا مدار کتاب وسنت پر ہے نہ کہ عقل پر۔ نقلی دلیل بھی صریح اور واضح ہونا چاہئے۔ ایچ پیچ اور تاویلات سے عقائد نہیں ثابت ہوتے۔ عقیدہ کا مأخذ صرف صریح نصوص کتاب مبین یا نصوص احادیث متواترہ ہوسکتی ہیں۔ موضوع کا تقاضا تو یہ ہے مگر حالت یہ ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ کے باغی۔ یعنی منکرین ختم نبوت کے پاس ان کے باطل مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تار عنکبوت کے برابر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دلیل وبرہان سے تہہ دستی انہیں مغالطوں کا سہارا لینے پر مجبور کرتی ہے۔ جن کے ذریعہ سے وہ ناواقفوں اور سادہ لوحوں کو اپنے دام فریب میں مبتلا کر کے مرتد بنالیتے ہیں۔