صرف تاریخ ہی دے سکتی ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جغرافی حیثیت سے یورپ اور ایشیاء کے درمیان واقع ہونے کے لحاظ سے اور زندگی کے مشرقی ومغربی نصب العین کے ایک امتزاج کی حیثیت سے اسلام کو مشرق ومغرب کے مابین ایک طرح کا نقطہ اتصال بننا چاہئے۔ لیکن اگر یورپ کی نادانیاں اسلام کو ناقابل مفاہمت بنادیں تو کیا ہوگا؟ یورپ کے روزمرہ حالات جو صورت اختیار کر ہے ہیں ان کا اقتفاء یہ ہے کہ یورپ اپنے اس طرز عمل کو کلیتہً بدل دے جو اس نے اسلام کے متعلق اختیار کیا ہے۔ ہم صرف یہ توقع کر سکتے ہیں کہ سیاسی بصیرت پر معاشی لوٹ اور شہنشاہی ہوس کا پردہ نہیں پڑے گا۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے۔ میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کا شکار نہیں بنیںگے جو ان کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ کر دے گی۔ اگر ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے تو ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اور حب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کر لیں گے۔
ہزہائینس آغا خاں کے متعلق میں دو ایک لفظ کہنا چاہتا ہوں۔ میرے لئے اس امر کا معلوم کرنا دشوار ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے آغا خاں پر کیوں حملے کئے۔ شاید وہ خیال کرتے ہیں کہ قادیانی اور اسماعیلی ایک ہی زمرے میں شامل ہیں۔ وہ اس بات سے بداہتہً بے خبر ہیں کہ اسماعیلیوں کی دینیاتی تاویلات کتنی ہی غلط ہوں۔ پھر بھی وہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اسماعیلی تسلسل امامت کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک امام حامل وحی نہیں ہوتا۔ وہ محض قانون کا مفسر ہوتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ ہزہائینس آغا خاں نے اپنے پیروؤں کو حسب ذیل الفاظ سے مخاطب کیا تھا۔
(دیکھو اسٹار الہ آباد مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۳۴ئ)
’’گواہ رہو کہ اﷲ ایک ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں۔ قرآن اﷲ کی کتاب ہے۔ کعبہ سب کا قبلہ ہے۔ تم مسلمان ہو اور مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ مسلمانوں سے السلام علیکم کہہ کر ملو۔ اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھو۔ مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھو۔ پابندی سے روزے رکھو۔ اسلامی قانون نکاح کے مطابق اپنی شادیاںکرو۔ تمام مسلمانوں سے اپنے بھائیوں کی طرح برتاؤ کرو۔‘‘
اب پنڈت جواہر لال نہرو کو اس امر کا تصفیہ کرنا چاہئے کہ آیا آغا خاں اسلامی وحدت کی نمائندگی کر رہے ہیں یا نہیں۔