بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
ساری حمد وستائش خداوند کریم کے لئے جس نے مخلوقات کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام بھیجے اور درود وسلام آخری نبی حضرت محمدﷺ پر کہ جن کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔
امابعد! گذارش یہ ہے کہ یہ کتابچہ نہ تو میری فکر وکاوش کا نتیجہ ہے اور نہ ہی میں نے اس کے لئے کچھ زیادہ کوشش کی ہے۔ بلکہ یہ ایک حادثے کے تحت منصہ شہود پر آگیا۔ حقیقت میں یہ قدرت الٰہیہ کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے۔
میں نے ایک کتابچہ ۱۹۶۳ء میں بہ عنوان ’’مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘ ترتیب دیا اور شائع کیا۔ جس کا محرک راولپنڈی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج محمد اکبر صاحب کا وہ تاریخی فیصلہ تھا۔ جو انہوں نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ میں صادر فرمایا تھا اور وہ مقدمہ یہ تھا کہ مسمی کرم الٰہی نے اپنی لڑکی (امتہ الکریم) کی شادی لیفٹیننٹ نذیر الدین کے ساتھ بالعوض مبلغ دو ہزار روپے کر دی۔ کچھ دنوں کے بعد اختلاف عقائد کی وجہ سے زوجین کے تعلقاب خراب ہو گئے اور جب نذیر الدین کو واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ امتہ الکریم مرزائی ہے تو اس نے کہا کہ اسلام غیر مسلم لڑکی (مرزائی) سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا اور اس کے اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا نذیر الدین نے مرزائی لڑکی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لڑکی والوں نے حق مہر کے لئے عدالت سے رجوع کیا۔ یہ مقدمہ ایک مدت تک چلتا رہا اور بالآخر محمد اکبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی نے فیصلہ دیا کہ ’’مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘ اور نذیر الدین حق مہر کی ادائیگی کا پابند نہیں رہا۔ پاکستان کے مروجہ قانون کے تحت ایک ذمہ دار عدالت کا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج فیصلہ دیتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے ماننے والے مسلمان نہیں ہیں اور مرزائی لڑکی کا نکاح مسلمان کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ ہم بحیثیت پاکستانی مسلم شہری کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج محمد اکبر کا یہ فیصلہ صحیح اور واجب العمل تسلیم کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا فیصلہ میں نے متعد بار شائع کیا کہ جب ۱۹۶۳ء میں میں نے یہ کتابچہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صاحب بالقابہ کے نام نامی اور اسم گرامی سے معنون کیا اور اس میں چوہدری سر ظفر اﷲ کی غیر ذمہ دارانہ حرکات کا ذکر کیا اور مملکت خداداد پاکستان میں اس کی ریشہ دوانیوں کی نشان دہی کی تو نہ جانے قانون کی پیشانی پر کیوں بل آگیا۔