۵… آنحضرت کی توہین۔
(حقیقت الوحی ص۷۶،۶۸،۷۹،۱۰۲،۱۶۲، نزول المسیح ص۹۹، براہین احمدیہ ج۵ ص۸۵)
۶… ساری امت کو بجز اپنے متبعین کے کافر کہنا۔
از مولانا المکرم واستاذنا المعظم العالم النبیل الفاضل
الجلیل محمد شفیع صاحب زید مجدہ سابق مفتی دیوبند
(وحال مفتی اعظم پاکستان)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف میرے نزدیک بلکہ تمام علمائے امت کے نزدیک یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو شخص نبی کریمﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے یا ختم نبوت کا انکار کرے وہ کافر ومرتد ہے اور اس کا نکاح کسی مسلمان عورت سے جائز نہیں۔ اگر نکاح کے بعد یہ عقیدہ اختیار کرلے تو نکاح فسخ ہو جائے گا اور بغیر حکم قاضی اور بلا عدت اسے دوسرے نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔
اس کے ثبوت کے لئے سب سے پہلے میں عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ کس وقت ایک مسلمان کو کن افعال یا اقوال کی بناء پر کافر کہا جاسکتا ہے؟
رسول کے انکار کے معنی
میں سب سے پہلے ایک آیت پیش کرتا ہوں۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے۔
’’فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فی ما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً (النسائ:۶۵)‘‘ {وہ شخص ہر گز مؤمن نہیں ہوسکتا جو آنحضرتﷺ کو اپنے تمام معاملات میں حکم نہ بنائے اور آپ کے فیصلہ کو ٹھنڈے دل سے قبول نہ کرے۔}
اس آیت کی تفصیل میں حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں: ’’لوان قوماً عبدوا اﷲ تعالیٰ واقاموا الصلوٰۃ واتو الزکوٰۃ وصاموا رمضان وحجوا البیت ثم قالوا شیٔ صعنہ رسول اﷲ الا صنع خلاف ما صنع اوو جدوا فی انفسہم حرجا کانوا مشرکین‘‘ اگر کوئی قوم یا جماعت خدا کی عبادت کرے نماز پڑھے۔ زکوٰۃ دے