عقیدہ کفر یہ ظاہر ہوتو اس پر تکفیر کا حکم کرنے میں جلدی نہیں کرتے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے اس کے کلام کی تاویل کر کے اس کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں اور جب تک وہ خود اپنی مراد کو خود اسی طرح واضح نہ کر دے جس میں تاویل نہ چل سکے ۔اس وقت تک اس کی تکفیر نہیں فرماتے۔
مرزاقادیانی کے بارے میں بھی ان حضرات کا یہی طرز رہا۔ جب تک اس نے صاف وصریح طور پر نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ مہدی، مجدد، مسیح موعود کہتا رہا۔ اگرچہ ضمنی طور پر ان میں بھی دعوائے نبوت پایا جاتا تھا۔ مگر محققین علماء بالخصوص اکابر دارالعلوم دیوبند اس وقت تک اس کی تکفیر سے کف لسان کرتے رہے۔ تاآں کہ اس نے اپنے دعوؤں میں نبوت، رسالت، وحی، شریعت سبھی چیزوں کا صاف طور پر اظہار واعلان کیا تو دارالعلوم دیوبند کے دوسرے سرپرست، ابوحنیفہ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ اور جملہ اکابر دارالعلوم نے اس کی تکفیر کا اعلان کیا اور اطراف ملک سے ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے علماء کا اس پر اجماع واتفاق ہوگیا۔ اس زمانے کے شائع شدہ مستقل رسائل واشتہارات اس پر شاہد ہیں۔ ۱۳۳۰ھ کا طبع شدہ رسالہ ’’القول الصحیح فی مکائد المسیح‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ جس میں دیار ہند کے ہر صوبہ وہر ضلع کے سینکڑوں علماء کی تصدیق موجود ہے۔ ادھر خود مرزاقادیانی کے قول کے مطابق یہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا اب انگریزوں ہی کے سائے میں پھولنے پھلنے لگا تھا۔ اس کی تبلیغ کا رخ اب غیرمسلموں میں تبلیغ اسلام سے ہٹ کر خود مسلمانوں کو کافر بنانے اور ٹھہرانے کی طرف پھر گیا۔ علمائے اسلام سے مناظروں، مباہلوں کے چیلنج شروع ہوئے۔ مناظروں میں ہر جگہ شکست فاش ہونے کے باوجود فتح عظیم کا ڈھنڈورا پیٹنا وظیفۂ زندگی بنالیا گیا۔ پروپیگنڈا کی دنیا میں انگریزوں کی حمایت سے ایک مقام حاصل کر لیا۔ مگر بایں ہمہ اس کا دجل وفریب ہندوستانی مسلمانوں پر آشکارا ہوگیا اور یہاں زمین سازگار نہ ملی تو اسلام اور مسلمانوں سے دور سات سمندر پار یورپ میں جاکر تبلیغ اسلام کا نقارہ بجایا۔ اسلام کی قبا کو کھینچ تان کر بلکہ پارہ پارہ کر کے ہوا پرست یوروپین تہذیب کی قامت نازیب پر راست کر کے دکھانا شروع کیا۔ قرآن میں تحریفات کر کے مغرب زدہ اقوام کو خوش رکھنے کی طرح ڈالی۔ ایک طرف یورپ میں اسلام کے نام سے دوسری طرف اہوائے نفسانی کے مطابق اسلام سے ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ دام فریب میں آنے لگا کہ ؎
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
ان چالاکیوں اور انگریز نوازیوں کے سہارے یہ طائفہ زور پکڑتا گیا۔ اب اس پودے کے لگانے والوں کے لئے پھل حاصل کرنے کا وقت آگیا کہ مسلمانوں کے اندر رہ کر ان میں