بشارت
۲۳؍رمضان المبارک ۱۳۷۱ھ بعد از نماز صبح قریب سات بجے فاروقی مسجد کے حجرے میں سورہا تھا کہ یکایک خواب ہی میں یہ معلوم کر کے رونا شروع کیا (کہ میں سرکار مدینہﷺ کی مبارک مجلس میں ہوں) کہ یارسول اﷲ فتنہ مرزائیت حد سے بڑھ گیا ہے۔ یا رسول اﷲ اس سے بچائیے۔ سرور کائنات علیہ افضل الصلوٰۃ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’رضیت باﷲ ربا وبالاسلام دیناً وبحمد نبیاً‘‘
پھر بیدار ہوگیا۔ ان ایام میں احقر کتاب ہذا کی ترتیب وتالیف میں مصروف تھا۔ اس خواب کی یہی تعبیر ذہن میں آئی کہ اس ناچیز تالیف پر ختم المرسلینﷺ کی نظر کرم ہے۔
چہ وصف کند سعدی ناتمام
علیک الصلوٰۃ اے نبی والسلام
تقریظ
’’فخر الاماثل فقید المثال مفسر قرآن الحاج حضرت مولانا احتشام الحق مدظلہ مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ حیدرآباد سندھ‘‘
’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ النبی الکریم الذی لا نبی بعدہ‘‘
مولانا محمد امیر الزماں صاحب کشمیری کی بروقت تالیف ’’فتنہ مرزائیت‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے اور کہیں کہیں سے بغور میں نے مطالعہ بھی کیا۔ دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ اﷲ تعالیٰ اس بروقت اور ضروری خدمت کو حسن قبول عطا فرمائے۔ آمین!
مولانا موصوف نے اس فتنۂ مرزائیت کے مذہبی وسیاسی نتائج کا بہت صحیح احساس فرمایا اور اجرائے نبوت کے باطل عقیدہ کی مختلف عنوانات سے تردید فرمائی ہے اور اسلام کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ختم نبوت کے عقیدہ کی بہترین وضاحت فرمائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ عوام وخوص اس رسالہ سے استفادہ کریں گے اور دوسروں تک ان خیالات کو پہنچانے کی سعی بلیغ کریں گے۔
آخر میں پھر مولانا کی اس کوشش کے لئے حسن قبول کی دعاء کرتا ہوں۔
بندہ احتشام الحق تھانوی
جیکب لائن کراچی
مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۵۲ء