جو دلیل اس وقت ہم تم کو دے رہے ہیں وہ کوئی ایسی دلیل نہیں جو صرف ہماری سمجھ کے موافق ہو۔ ورنہ ہم ہرگز اس کا ذکر نہ کرتے۔ کیونکہ ہماری سمجھ تمہاری سی سمجھ نہیں ہے۔ بلکہ ہم کو خوب معلوم ہوگیا ہے کہ یہ وہی دلیل ہے جس کے تم خود قائل ہو چکے ہو اور ایک حریف کے مقابل استعمال کر چکے ہو۔ پس اگر اب بھی تم اس کے زور کے قائل نہ ہو تو یہ خدا اور بندوں کے سامنے سرکشی ہے۔
ڈاکٹر ڈوئی امریکہ کا ایلیاہ جس کو مستجاب الدعوات ہونے کا بہت بڑا دعویٰ تھا اور جس کے تم شدت سے منکر تھے۔ تم نے خود کیسی معقول بات اس کو سنائی تھی۔ ہم تم کو یقین دلاتے ہیں۔ تم خوب یاد کر لو اور خدا کے سامنے اپنے دل کو کھول کر اور سرکو سجدہ میں جھکا کر غور کر لو۔ اس کو تم ہماری دلیل مت سمجھنا۔ خود اپنی دلیل سمجھو اور اس کے زور کو دیکھو۔ یعنی تم کو اس وقت اپنا قائل ہونا چاہئے۔
ستمبر ۱۹۰۲ء کے ریویو میں ص۳۴۵ پر تم نے ڈوئی کی نسبت لکھا تھا۔ ’’ڈوئی بیہودہ باتیں اپنے ثبوت میں لکھتا ہے کہ میں نے ہزار ہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں۔ ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا اور وہ مر گئی اور اب تک اس کے فراق میں روتا ہے اور کیونکر اپنے مرید کی عورت کو اچھا نہ کر سکا۔ جو بچہ جن کر مر گئی اور اس کی بیماری پر بلایا گیا پر وہ گذر گئی۔تم اس ڈوئی کے مریدوں کی خام خیالی اور خوش اعتقادی پر حیرت میں رہ جاتے ہو کہ کیونکر اس کی بیہودہ باتوں اور تاویلوں سے ان کی تسکین ہو جاتی ہے اور وہ اس کے معتقد بنے رہتے ہیں۔ باوجود اس سخت ناکامی کے اور تم کہتے ہو امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے۔
اب وہی بات ہم تم سے کہہ رہے ہیں۔ کاش تم خود اپنی بات یاد کرو اور اس کو سچ جانو اور آئندہ ڈوئی کی سی بیہودہ باتیں اپنے ثبوت میں لکھنا چھوڑ دو اور سادہ لوحوں کو ان کے امریکائی بھائیوں کی تقلید سے عبرت دلاؤ۔ کیونکہ دن ڈھل چکا۔ اب غروب کا وقت ہے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو لوٹے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ خدا تمہارے فرزند کی موت کو تمہاری روحانی زندگی کا باعث بناوے اور اسی کو خوب معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔‘‘
(ماخوذ از تجلی ماہ اکتوبر ونومبر ۱۹۰۷ئ)