کوئی لباس ہو یا اور کوئی ان کا تبرک ہو، ہمارے نزدیک بھی قابل تعظیم ہیں۔ اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں، ورنہ کل کو کوئی خود امام حسین ؓ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہیے کہ اس کی اور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالاںکہ بالیقین اس کو گستاخ وبے ادب قرار دے کر اس کی سخت توہین کے درپے ہوجاؤگے، اس سے معلوم ہوا کہ نسبتِ کاذبہ سے شے معظم نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے، اس بنا پر انصاف کرو کہ یہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اہانت کے۔
۲۔ معازف و مزامیر کابجانا جس کی حرمت حدیث میں صاف صاف مذکور ہے اور بابِ اوّل میںوہ حدیث لکھی گئی ہے اور قطعِ نظر خلافِ شرع ہونے کے عقل کے بھی تو خلاف ہے۔ معازف ومزامیر تو سامانِ سرور ہیں۔ سامانِ غم میں اس کے کیا معنی؟ یہ تو درپردہ خوشی منانا ہے۔ برچنیں دعویٰ الفت آفریں۔
۳۔ مجمع فساق وفجار کا جمع ہونا، جس میں فحش واقعات ہوتے ہیں کہ ناگفتہ بہ ہیں۔
۴۔ نوحہ کرنا جس کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ’’ لعنت فرمائی ہے رسول اللہ ﷺ نے نوحہ کرنے والے اور اس کی طرف کان لگانے والے کو‘‘۔1 روایت کیا اس کو ابوداود نے۔
۵۔ مرثیہ پڑھنا، جس کی نسبت حدیث میں صاف ممانعت آئی ہے۔ ابنِ ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے۔2
۶۔ اکثر موضوع روایات پڑھنا جس کی نسبت حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
۷۔ ان ایام میں قصداً زینت ترک کرنا ،جس کو’’ سوگ‘‘ کہتے ہیں اور حکم اس کا شریعت میں یہ ہے کہ عورت کو صرف خاوند پر چار ماہ دس دن یا وضع حمل تک واجب ہے۔ اور دوسرے عزیزوں کے مرنے پر تین دن جائز ہے، باقی حرام۔ سواب تیرہ سو سال کے بعد یہ عمل کرنا بلاشک حرام ہے۔
۸۔ کسی خاص لباس یا کسی خاص رنگ میں اظہارِ غم کرنا۔ ابنِ ماجہ میں حضرت عمران بن حصین سے ایک قصے میں منقول ہے کہ ایک جنازہ میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو دیکھا کہ غم میں چادر اُتارکر صرف کرتہ پہنے ہیں، یہ وہاں غم کی اصطلاح تھی ۔ آپ ﷺ نہایت ناخوش ہوئے اور فرمایا: ’’کیا جاہلیت کے کام کرتے ہو یا جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو؟ میرا تو یہ ارادہ ہوگیا تھا کہ تم پرایسی بددعا کروں کہ تمہاری صورتیں مسخ ہوجاویں‘‘۔ پس فو۔ًرا ان لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں اورپھر کبھی ایسا نہیں کیا۔1 اس سے ثابت ہوا کہ کوئی خاص وضع وہیئت اظہارِ غم کے لیے بنانا حرام ہے۔