قاعدئہ پنجم: اگرکسی امر خلافِ شرع کرنے سے کچھ فائدے اور مصلحتیں بھی ہوں جن کا حاصل کرنا شر۔ًعا ضروری نہ ہو یا اس کے حاصل کرنے کے اور طریقے بھی ہوں اور ایسے فائدوں کے حاصل کرنے کی نیت سے وہ فعل کیا جاوے یا ان فائدوں سے مرتب دیکھ کر عوام کو اس سے نہ روکا جاوے یہ بھی جائز نہیں۔ نیک نیت سے مباح تو عبادت بن جاتاہے اور معصیت مباح نہیں ہوتی، خواہ اس میں ہزار مصلحتیں اور منفعتیں ہوں، نہ اس کا ارتکاب جائز نہ، اس پر سکوت کرناجائز۔ اور یہ قاعدہ بہت ہی بدیہی ہے۔
مثلاً:اگرکوئی شخص اس نیت سے غصب وظلم کرے کہ مال جمع کرکے محتاجوں اور مسکینوں کی امداد کریں گے تو ہر گز ہرگز غصب و ظلم جائز نہیںہوسکتا، خواہ لاکھوں فائدے اس پر مرتب ہونے کی اُمید ہو۔ جب یہ قواعد اورمقدمات سمجھ میں آگئے تو اب تیسری صورت کے جواز وناجواز کی تفصیل سننا چاہیے۔ وہ یہ کہ قیودِ مذکورہ چوں کہ فی نفسہٖ امر مباح میں سے ہیں، اس لیے ان کی ذات میں کوئی خرابی نہیں، نہ ان کی وجہ سے محفل میں کوئی ذاتی ممانعت۔ لیکن اس مباح سے اگر کوئی فساد و خرابی لازم آنے لگے تو اس وقت ان امور اور محفل کو اس عارض کی وجہ سے ممنوع و ناجائز کہا جاوے گا اور اگر کسی قسم کی کوئی خرابی لازم نہ آوے تو وہ امور بھی بحالِ خود مباح رہیں گے۔ چناںچہ قاعدۂ دوم سے یہ حکم واضح ہے۔
اب دیکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ آیا ہمارے زمانہ میں ان مباحات کی وجہ سے کوئی خرابی لازم آرہی ہے یا نہیں، اگر لازم آتی ہوئی دیکھو تو اس محفل کو منع سمجھو اورناجائز۔ اور یہ امر تجربہ و مشاہدہ سے بخوبی بلاتردّ معلوم ہوسکتاہے۔ اس میں کوئی بحث ومباحثہ کی ضرورت نہیں۔ سو راقم کا کئی سال کا تجربہ ہے اس کی رُو سے عرض کیا جاتاہے کہ بلا شک اکثر بلکہ قریب کل عوام ان قیود کو مؤکد، ضروری ولوازمِ مجلس سے جانتے ہیں اور مثل ضروریاتِ دین کے، بلکہ اس سے بدرجہا زیادہ ان کے ساتھ عمل درآمد کرتے ہیں۔ چناںچہ ان کے کرنے میں جس قدر اہتمام ہوتاہے نمازِ جمعہ وجماعت میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں دیکھا جاتا اور اس کے ترک سے جس قدر ناگواری ہوتی ہے، فرائض وواجبات کے ترک سے ہر گز ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ خود ترک کرنا تو بہت بعید ہے، اگر کوئی دوسرا شخص انکار کرے تو درکنار، اگرترک بھی کرے تو اس پر لعن وطعن حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ کفار و مبتدعین و فساق سے زیادہ اس کے مخالف اور آمادئہ ایذا رسانی وبدزبانی ہوجاتے ہیں۔ جب عوام نے اپنے اعتقاد وعمل سے ان اُمور کی یہاں تک نوبت پہنچادی کہ فرض و واجب سے بھی زیادہ ان کی شان بڑھادی تو لاریب اس التزام واصرار کی وجہ سے یہ اُمور مکروہ وممنوع ہوجاویں گے، جیساکہ قاعدئہ اوّل میں ثابت ہوچکا ہے۔ جب یہ اُمور ممنوع ہوئے تو ان کے ملنے سے وہ محفل بھی غیر مشروع اور ممنوع ٹھہرے گی جیساکہ قاعدئہ دوم میں