اور اگر کوئی کہے کہ کبوتر بازوں کا گروہ اس مبادلہ پر رضامند ہے کہ جس کے ہاتھ آوے لے جاوے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اگر یہ رضامندی تسلیم بھی کرلی جائے تو جوئے میں داخل ہے، ۔ُجوا رضامندی سے حلال نہیں ہوتا، اس کا حرام ہونا قرآن مجید میں منصوص ہے۔ غرض کسی طرح اس میں جواز کی صورت نہیں۔ پھر اس میں جو مشغولی ہوتی ہے جس میں نہ نماز کی خبر رہتی ہے، نہ اہلِ حقوق کے حقوق ادا کرنے کی، نہ اہل وعیال کی خدمت گزاری کی، خود ایک مستقل وجہ اس کے حرام ہونے کی ہے۔ کیوںکہ عبادات وحقوقِ مذکورہ واجب ہیں، اور ترکِ واجب حرام ہے، چناںچہ سب مقدمات ظاہر ہیں۔
اور ان لوگوں کا بے دھڑک کوٹھوں پر چڑھ جانا اور پردہ داروں کی بے پردگی کی کچھ پروانہ کرنا اور کبوتروں کو ڈھیلے مارنا، اس سے لوگوں کا پریشان ہونا، یہ ایک معمولی بات ہے، جس کا قبیح اور موجبِ بے غیرتی ہونا محتاجِ بیان نہیں۔ ’’درمختار‘‘ میں ایسی صورت کی نسبت لکھا ہے کہ ’’اگر منع کرنے سے باز نہ آئے تو محتسب2 کو چاہیے کہ ان کبوتروں کو ذبح کر ڈالے‘‘۔ الغرض جس چیز میں اس قدر مفاسد ہیں وہ کسی طرح جائز نہیں ہوسکتی۔
کنکوا اڑانا :3 اب کنکوے بازی کی نسبت بھی سن لیجیے۔ جس قدرخرابیاں کبوتر بازی میں ہیں، قریب قریب اس میں بھی سب موجود ہیں:
۱۔ کنکوے کے پیچھے دوڑنا، جس میںپیغمبر صاحب ﷺ نے دوڑنے والے کو شیطان فرمایا ہے۔
۲۔ کنکوے کو لوٹ لینا، جس کی ممانعت حدیث میں صراحۃً وارد ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’نہیں لوٹتا کوئی شخص ایسا لوٹنا جس کی طرف لوگ نگاہ اٹھاکر دیکھتے ہوں اورپھر بھی وہ مؤمن رہے‘‘۔4 روایت کیا اس کوبخاری اور مسلم نے۔ یعنی یہ خصلت ایمان کے خلاف ہے۔ اس حدیث کے خواہ کچھ ہی معنی ہوں، مگر ظاہرًا توپیغمبر صاحب ﷺ نے ایسے شخص کو خارج از ایمان فرمادیا۔ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ اس لوٹنے میں تو مالک کی اجازت ہوتی ہے، تو اس کے ساتھ یہ وعید متعلق نہیں ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، مالک کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی، چوںکہ عام رواج اس کا ہورہاہے اس لیے خاموش ہوجاتاہے، دل سے ہرگز رضامند اورخوش نہیں، اگر اس کا بس چلے تو ڈور اور کنکوا ہرگز کسی کونہ لینے دے۔ یہی تو وجہ ہے کہ جب کنکوا کٹ جاتاہے تو وہ بڑی جلدی جلدی ڈور کھینچتاہے کہ جو ہاتھ لگ جائے غنیمت ہے۔
۳۔ ڈور کو لوٹ لینا، بلکہ اس میں ایک اعتبار سے کنکوے کو لوٹنے سے بھی زیادہ قباحت ہے، کیوں کہ کنکوا تو ایک ہی کے