بھی مثل نکاحِ اوّل کے فرض ہے، مثلاً: عورت جوان ہے، قرائن سے طبیعت میں تقاضا معلوم ہوتاہے، تجرّد میں اندیشۂ فساد ہے یانان ونفقہ کی تنگی ہے اور افلاس میں آبرو اور دین کے ضائع ہونے کا احتمال ہے، تو بے شک ایسی عورت کا نکاحِ ثانی کرنا فرض ہوگا۔ اور اگر ایسی نہ بھی ہو تب بھی چوںکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جس عمل سے دل میں تنگی اور انقباض پیدا ہوتاہے اور اس کو موجبِ عار و ننگ سمجھنے لگتے ہیں، تاوقتے کہ اس عمل کو عام طور پر شائع نہ کیا جاوے، وہ تنگی دل سے نہیں نکلتی، اس لیے اصل مقصود ۔ُعلما کا تو یہی ہے کہ اس کو عیب نہ سمجھیں، مگر چوںکہ یہ موقوف ہے اس کے عمل کے لانے پر اس لیے ترویجِ عملی میں کوشش کرنا ضروری جانتے ہیں اور واقع میں بھی ضروری ہے۔
فصلِ ہشتم: من جملہ ان رسوم کے طالب علموں کا بڑے بڑے عہدوں کے حاصل کرنے کے لیے باوجود ضائع ہونے دین کے انگریزی پڑھنا یا معقول وفلسفہ میں دینیات سے زیادہ توغُّل و انہماک کرنا ہے۔ چوںکہ ان دونوں چیزوں کا ضرر رساں ہونا تجربہ ومشاہدہ سے ثابت ہوچکا ہے، اس لیے داخل وعید ِقرآنی ہوکر واجب المنع ٹھہریں، قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَیَتَعَلَّـمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْط} ہر چند کہ محصلانِ انگریزی یہ کہتے ہیں کہ انگریزی ایک زبان ہے، اس میں کیا برائی ہے، مگر یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے غایت مافی الباب خود اس کی اباحتِ ذاتی ثابت ہوتی ہے اور بس۔ لیکن مباح جب ذریعہ معصیت کا ہوجاوے یا بہ نیتِ ارتکاب معصیت کے اس کو اختیار کیا جاوے تب تو مباح معصیت ہوجاتاہے، مثلاً: چلنا فی نفسہٖ مباح ہے، مگر جب بہ نیت چوری کرنے کے چلے تو عقلاً ونقلاً اس وقت یہ چلنا ضرور حرام ہوجاوے گا اور ظاہر ہے کہ یہ جو بڑے بڑے پاس حاصل کیے جاتے ہیں، ان سے بجز اس کے کہ بڑے بڑے عہدے اور منصب جو بالکل خلافِ شرع ہیں حاصل کیے جاویں اور کوئی بھی غرض نہیں، جب وہ معصیت ہیں تو کوئی زبان جب اس کا ذریعہ بنایا جائے کیوںکر معصیت نہ ہوگی۔ تو اگر اس میں اور مفاسد بھی نہ ہوتے جوکہ غالب الوقوع ہیں، جیسے کہ دین کی پروا نہ رہنا، عقائد میں فساد آجانا، نخوت وترفّع وتکبر وطولِ امل کا پیدا ہوجانا وغیرہ وغیرہ، اور دینیات کا ہر طرح سے پابند رہنا اور علم وعمل دونوں درست رہتے، تب بھی بوجہ نیتِ مذکورہ کے اس کی تحصیل حرام ہوتی۔ اور جب سب جمع ہوجائیں تب تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔
البتہ اگر اپنی کارروائی روزمرہ کے لیے پڑھے یا ضرورتِ دینیہ کے لیے پڑھے اس وقت یہ وجہیں حرمت کی نہ رہیں گی، مگر اس میں کسی پاس وغیرہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، صرف استعداد کافی ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا دعویٰ کرے تو اس کے صدق وکذب کا معیار وامتحان یہی ہے کہ اگر پاس حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے تو سچا ہے، ورنہ جھوٹا۔ اسی طرح