غرض بقدرِ تحمل مقتدیوں کے پڑھنا چاہیے اور صاف صاف، گو کئی کئی ختم نہ ہوں۔
سوم: بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اُجرت لے کر قرآنِ مجید سناتے ہیں۔ طاعت پر اُجرت لینا حرام ہے۔ اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے مقرر نہیں کیا، اس لیے یہ معاوضہ نہیںہوا۔ جواب یہ ہے کہ گو پہلے سے نہیں ٹھہرایا، نیت۔ّ تو دونوں کی یہی ہے۔ اور نیت۔ّ بھی مرتبۂ خطرہ وخیال میں نہیں، بلکہ مرتبۂ عزم میں، اگرکسی طور سے یہ معلوم ہوجاوے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہوگا تو ہرگز ہرگز وہاں پڑھیں ہی نہیں، اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ معروف مثل مشروط کے ہے۔ جب اس کا رواج ہوگیا اور دونوں کی نیت۔ّ یہی ہے تو بلا شک وہ معاوضہ ہے اور تعلیمِ قرآن پر اُجرت لینے کے شبہ کا جواب فصلِ چہارم میں گزر چکاہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب! بلا اُجرت پڑھنے والا تو ہم کو ملتا نہیں اور اُجرت دے کر سننا جائز نہیں،تو پھر قرآن کیوں کر سنیں؟
جواب یہ ہے کہ پورا قرآن سننا فرض نہیں، ایک امرِ مستحب کے لیے مرتکب حرام کا ہونا ہرگز جائزنہیں۔ {أَلَمْ تَرَ کَیْف} سے تراویح پڑھ لو، ایسی حالت میں قرآنِ مجید کا ختم سننا ہی ضرور نہیں۔
چہارم: بعض حفاظ کی عادت ہے کہ لیالی القدر میں یا اور کسی شب میں سب جمع ہوکر ایک یا کئی شخص مل کر قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور عرف میں اس کو ’’شبینہ‘‘ کہتے ہیں۔ اوّل تو بعض ۔ُعلما نے ایک شب میں قرآنِ مجید ختم کرنے کومکروہ کہا ہے، کیوںکہ اس میں ترتیل وتدبیر کا موقع نہیں ملتا۔ مگر چوںکہ سلفِ صالحین سے ایک روز میں ختم کرنا، بلکہ بعض بعض سے کئی کئی ختم کرنا منقول ہے، اس لیے اس میں گنجایش ہوسکتی ہے، مگراس میں اور بہت سے مفاسد شامل ہوگئے، جن کی وجہ سے یہ عمل شبینہ کا بطریقِ مروّج بلا شک مکروہ ہے:
۱۔ ہرشخص کوشش کرتاہے کہ جس طرح ممکن ہو شب بھر میں قرآنِ مجید ختم ہوجاوے اور اس وجہ سے نہ ترتیل کی پروا ہوتی ہے اور نہ غلطی رہ جانے کاغم ہوتاہے۔ بعض اوقات خود پڑھنے والے یا سننے والے کومعلوم ہوتاہے کہ فلاں مقام پر غلطی پڑھی گئی ہے، مگر اس ختم کرنے کے خیال سے اس کو اسی طرح چھوڑ جاتے ہیں۔
۲۔ اکثر پڑھنے والوں کے دل میں رِیا وتفاخر ہوتاہے کہ زیادہ اور جلدی پڑھنے سے نام ہوگا کہ فلاں نے ایک گھنٹے میں اتنے پارے پڑھے اور رِیا وتفاخر کا حرام ہونا ظاہر ہے۔
۳۔ بعض جگہ نوافل میں یہ ختم ہوتاہے اور نوافل کی جماعت خود مکروہ ہے۔ اور اگر تراویح میں پڑھا، اس میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اگر سب مقتدی شریک ہوئے تب تو ان پر پورا جبر ہے اور اگر وہ نہ شریک ہوئے تو آج کی تراویح میں جماعت سے