فصلِ دہم: من جملہ ان رسوم کے غیر مذہب والوںکی وضع بنانا ہے،لباس میں یا طرزِ نشست و برخاست میں، خوردو نوش میں یا کسی اور امر میں۔حضرت ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’جو شخص مشابہت اختیار کرے کسی قوم کے ساتھ پس وہ انہیں میں سے ہے‘‘۔1 روایت کیا اس کو احمد اور ابو داود نے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن پر دو کپڑے کسم کے رنگے ہوئے ملاحظہ فرمائے۔ پس ارشاد فرمایا کہ: ’’بے شک یہ کپڑے کافروں کے ہیں، ان کومت پہنو‘‘۔2 روایت کیا اس کو مسلم نے۔
حضرت ابی ریحانہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس چیزوں کو منع فرمایا۔ من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ فرمایا: ’’کوئی اپنے کندھے پر حریر کا ٹکڑا لگانے لگے مثل اہلِ عجم کے‘‘۔3 روایت کیا اس کو ابو داود نے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’یہود ونصاری خضاب نہیں کرتے، تم ان کی مخالفت کرو‘‘۔1 روایت کیا اس کو بخاری ومسلم نے۔ اور اس باب میں اس کثرت سے حدیثیں آئی ہیں کہ حصر دشوار ہے، ان سب حدیثوں سے صاف صاف تشبہ۔ّ بالکفار2 کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں لباس کی مشابہت کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں بال رنگنے نہ رنگنے کا حال مذکور ہے۔ ایک میں مطلق تشبہ۔ّ ممنوع ہے، جو اپنے اطلاق کی وجہ سے تمام امور کو شامل ہے۔ اس زمانہ میں بعض لوگوں کے دل کو یہ بات ہر گز نہیں لگتی۔ کوئی صاحب تو حدیثوں ہی کا انکار فرماتے ہیں کہ حدیث کا اعتبار ہی نہیں۔ غضب ہے، ظلم ہے۔ جس علم کا ایک ایک ٹکڑا مؤلف سے، بلکہ اس وقت کے راوی سے لے کر جناب رسول اللہ ﷺ تک بسندِ متصل وصحیح ثابت ہو اور ہر زمانہ میں ایک ایک راوی کے حالات، ولادت3، وفات و سفر، شیوخ و تلامذہ 4و کیفیتِ تدین5و صدق و قوتِ حافظہ، و صحتِ عقیدت وغیرہ سے کھود کرید ہوتی رہی ہو اور ذرا بھی کسی بات میں فرق یا شبہ پڑا، فور۔ًا اس کو ترک کردیا گیا جو فن اس تنقید و تحقیق سے مدوّن6 ہوا ہو، اس کا اعتبار نہ ہو اور تاریخ جس میں ہزاروں رطب ویابس7 بھرے ہوں، مؤرخ کے قیاسات واقعات قرار پا گئے ہوں، مؤرخین میں اس شدت و کثرت سے اختلاف ہو کہ تطبیق کی صورت ہی نہ بن سکے، نہ ان لوگوں کا ایمان دار اور سچا ہونا، نہ محد۔ّثین کی برابر قوت حافظہ کا ہونا ثابت ہوا ہو، اس کا ہر ہر جزو گویا جزو ایمان سمجھا جاوے، اس بے انصافی کی کوئی حد بھی ہے۔
بعض فرماتے ہیں کہ حدیث تشبّہ کی ضعیف ہے۔ اللہ اکبر! جن صاحبوں کو اتنی خبر نہ ہو کہ حدیثِ ضعیف کیا ہے، وہ