صاحب اس وضع سے لوگوں کی نظر میں وقعت اور ان پر ہیبت ہوتی ہے، کیوںکہ اہلِ حکومت کی وضع ہے، اس مصلحت سے یہ وضع اختیار کی گئی ہے۔ غرض اقرار بھی ہے اور قرائنِ قویہ سے بھی یہ یقینی ہے۔ جب قصدتشبہ۔ّ کا ہو حرام ہوگیا۔
بعض لوگ کہتے ہیںکہ ہم نے ٹوپی ٹرکی پہن لی ہے، اب تو تشبہ۔ّ نہیں رہا۔ اوّل تو وہ ٹرکی ٹوپی بھی ہمارے ملک میں نیچریوں کا شعار ٹھہر گیا ہے۔ اس کا پہننا کون سا تعریف کاکام ہے۔ پھر یہ کہ اگر ٹوپی بدل دی تو چلو ٹوپی میں مشابہت نہ رہی، ایک گناہ ہلکا ہوا، باقی جتنے عددوں میں تشبہ۔ّ ہے اتنے گناہ اس پر رہے۔ اس میں براء ت کی صورت کیا نکلی۔ اس طرح اور بھی لچر شبہات پیش کیا کرتے ہیں۔ جن کا جواب اصلِ مذکورہ کی تحقیق کے بعد ہر شخص سمجھ لے گا۔ اب دو دلیلیں ان حضرات کے مزاج کے موافق عرض کرتاہوں: ایک نقلی جوان کے نزدیک بھی مسلّم ہے، دوسری عقلی جو بوجۂ عقل پرستی کے اس سے بھی زیادہ تسلیم کے قابل ہوگی۔ نقلی دلیل وہ جملہ ہے جس کو اپنے ہر لیکچر میں اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کے ضمن میں فرمایا جاتاہے: لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِي الإِْسْلَامِ۔ حد متوسط سے زیادہ اپنے نفس پر تشدد کرنے کی نہی اور نفی لفظ ’’رہبانیہ‘‘ سے کیوں فرمائی گئی؟ ’’رہبانیہ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ یہ لفظ ’’رہب‘‘ سے بنایا گیا ہے یا نہیں؟ اور رہب کس کو کہتے ہیں؟ درویش نصرانی کو کہتے ہیں یا نہیں؟اگریوں فرمادیتے اپنے نفس پر زیادہ تشد۔ّ د مت کرو۔ جب بھی تو مطلب حاصل ہوجاتا، یہ کیوں فرمایا کہ اسلام میں راہب بننے کی اجازت نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ غلوا1 اور تشدد کے مذموم ہونے کی علت بتلانا منظور ہے کہ اس میں راہبوں کی مشابہت ہوتی ہے، تو مسلمان ہوکر کیوں راہب بنتے ہو؟ اب بتلائیے تشبّہ کا حرام ومذموم ہونا ثابت ہوا یا نہیں۔
دلیلِ عقلی یہ ہے کہ اگر کسی صاحب سے جو مسئلہ تشبّہ میں الجھ رہے ہوں، مخلی بالطبع2 ہونے کے وقت مجمعِ عام میں ایک زنانہ جوڑاپیش کرکے عرض کیا جائے کہ اس کو زیبِ بدن فرما لیجیے، تو یقین ہے کہ اگر ان کا قابو چلے تو مستدعی3 کی جان تک لینے میں دریغ نہ فرماویں۔ کیوں صاحب! تشبّہ کا مسئلہ اگر کوئی با وقعت نہیں تو اس مقام پر عورت کے ساتھ تشبّہ کی استدعا کرنے سے کیوں اس قدر غیظ وغضب نازل ہوا۔ جب ایک مسلمان کے ساتھ تشبّہ ہونے سے تھوڑے فرق کی وجہ سے یہ ناگواری ہے تو کافروں کے ساتھ تشبّہ کرنے سے تو بوجہ اختلاف دین زیادہ غیرت ہونی چاہیے۔ اور واضح رہے کہ حکمی وردی اس حکم سے مستثنیٰ ہے کہ وہ شعار منصب1 کا ہے اور اس کو تشبّہ سے کوئی علاقہ نہیں۔
دوسرا باب
ان رسوم میں جن کو عوام مباح سمجھتے ہیں اور اس میں بھی چند فصلیں ہیں: