کرلیں، پھر دونوں صاحبوں کے لیے دعائے تطہیر تألیف و برکتِ اولاد، خوش نصیبی کی فرمائی اور ارشاد فرمایا: جاؤ، آرام کرو۔
مؤلف: اگرداماد کا گھر قریب ہو تو یہ عمل بھی کرنا موجبِ برکت ہے۔ اور جہیز حضرت سیدۃ النساء کا یہ تھا:ـ دوچادر یمانی جو سوسی کے طور پر ہوتی تھیں، دو نہالی جس میں السی کی چھال بھری تھی اور چار گدّے، دوبازو بند چاندی کے اور ایک کملی اور ایک تکیہ اور ایک پیالہ اور ایک چکّی اور ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن، یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ 1
مؤلف: صاحبو!جہیز میں اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے: اوّل اختصار کہ گنجایش سے زیادہ تگ و دو نہ کرے۔ دوم ضرورت کا لحاظ جن چیزوں کی سرِدست ضرورت واقع ہوگی وہ دینا چاہیے۔ سوم اعلان نہ ہو، کیوں کہ یہ تو اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے، دوسروںکو دکھلانے کی کیا ضرورت ہے؟ حضور ﷺ کے فعل سے جواس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔
اور حضور ﷺ نے کام اس طرح تقسیم فرمایا کہ باہر کاکام حضرت علی ؓ کے ذمہ اور گھر کا کام حضرت فاطمہ ؓ کے ذمہ۔
مؤلف: معلوم نہیں ہندوستان کی شریف زادیوں میں گھر کے کاروبار سے کیوں عار کی جاتی ہے۔
پھر حضرت علی ؓ نے ولیمہ کیا اور ولیمہ میں یہ سامان تھا: ۔َجو چند صاع (ایک صاع نمبری سیر سے ساڑھے تین سیر کے قریب ہوتاہے) اور کچھ خرما اور کچھ مالیدہ۔
مؤلف: پس ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلا تکلف وبلا تفاخر اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلادے۔
نکاحِ ازواج مطہرات: مہر حضرت خدیجہ ؓ پانچ سو درہم یا اس قیمت کے اونٹ تھے، جو ابوطالب نے اپنے ذمے رکھے۔ اور حضرت اُمّ سلمہ ؓ کا کوئی برتنے کی چیز تھی جو دس درہم کی تھی۔ اور حضرت جویریہ ؓ کا چار سو درہم تھے۔ اور حضرت اُمّ حبیبہ ؓ کا چار سو دینار تھے جو شاہِ حبشہ نے اپنے ذمہ رکھے۔ اور حضرت سودہ ؓ کا چار سو درہم تھے۔ اور ولیمہ حضرت اُمّ سلمہ ؓ کا قدرے ۔َجو کا کھانا اور حضرت زینب بنتِ جحش ؓ کے ولیمہ میں ایک بکری ذبح ہوئی تھی اور گوشت روٹی لوگوں کو کھلائی گئی۔ اور حضرت صفیہ ؓ کاجو جو کچھ صحابہ ؓ کے پاس حاضر تھا سب جمع کرلیا گیا۔ یہی ولیمہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا، خود