لیے حلال مال بھی کم میسر ہوتا ہے۔ کیوں کہ حلال مال اوّل تو اس قدر کس کے پاس ہے، پھر اس کو بے دریغ خرچ کرنا بھی مشکل ہے۔ حرام مال مسجد میںلگانا اور زیادہ وبال ہے۔
غرض اتنی خرابیاں اس میں جمع ہیں۔ اس لیے مساجد کو سادہ اور مستحکم بنانے پر اکتفا کریں، ان سب زوائد کو حذف کردیں۔ جس قدر اس میں خرچ کرنا ہو، مصلحت یہ ہے کہ اوّل اس کی کوئی جائیداد یا دکان وغیرہ خرید کر اس کے مصارف کے لیے وقف کردیں۔ اور بعض لوگوں کا حضرت عثمان ؓ کے بنائے مسجدِ نبوی اور اس میں ساج وغیرہ کے نقش کرنے کے قصے کو دلیلِ نقلی میںپیش کرنا اور مصلحتِ اعزاز و رفعتِ دین کو دلیلِ عقلی میں پیش کرنا محض ناکافی ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے اس قدر تکلف نہیں فرمایا تھا، نہ ان کی نیت میں تفاخر تھا، نہ مشتبہ مال اس میں لگایا، ان کے قصے پر اپنے فعل کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ؎
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر
اور دین کا اعزاز و تر۔ّفع ایسے اُمور سے نہیں ہوتا، بلکہ سادگی میں اس کا حسن اور دوبالا ہوجاتا ہے۔
حضرت عمر ؓ کا ارشاد: نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالإِْسْلَامِ (ہم ایسی قوم ہیں کہ عزت دی ہم کو خدا نے اسلام کے سبب ) آبِ زر سے لکھ کر حرزِ جاں بنانے کے قابل ہے، اور اس کے حاشیہ پر حافظ شیرازی کا شعر چڑھانے کے لائق ہے ؎
زعشق ناتمامِ ما جمالِ یار مستغنی ست
بآب و رنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
اسی طرح مساجد بہت پاس پاس بنانا بالخصوص تفاخر و تزاحم کے لیے بھی بالکل دین اور عقل کے خلاف حرکت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین کے کام کو دین کے طور پر کرو، ورنہ ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کامضمون ہوجاتاہے۔
خاتمہ: الحمدللہ کہ تیسرے باب کے ساتھ کتاب ہذا بھی اختتام کو پہنچی اور آج ہی کے دن تاریخ چہارم ربیع الثانی ۱۳۱۲ھ اسی ناکارہ کی عمر سے پورا اڑتیسواں سال بھی ختم ہوا یہ مد۔ّ ت تو جو کہ قریب چہل ہے سعدی ؒ کے اس قول کا مصداق ہے ؎
چہل سال عمرِ عزیزت گزشت
مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت
دیکھئے آیندہ کتنی عمر باقی ہے اور کس حالت میں گزرتی ہے۔ یا اللہ! اپنی رحمت کا صدقہ کہ بقیہ عمر کو اس عمر گزشتہ کا مصلح بنا