جوکچھ ماں باپ یا اقارب نے چھوڑا، قلیل ہویا کثیر یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے الخ‘‘۔1 ایسے صاف حکم کے خلاف پر کس طرح جرأت ہوتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب! وہ لیتی نہیں۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ صاحب! تم نے کب دیا تھا کہ انھوں نے انکار کیا۔ البتہ لحاظِ مروّت سے مانگا نہیں۔ اس سے کسی کامال حلال نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے دینا چاہا تھا، انھوں نے نہیں لیا۔ یہ بھی عذر ناکافی ہے۔ ایک نہ لینا اس وجہ سے ہوتاہے کہ لینے سے خلقت ملامت کرے گی۔ یہ شر۔ًعا معتبر نہیں۔ ایک نہ لینا محض ۔ِطیب ِ خاطر سے ہوتاہے، سو اس کافیصلہ ہر شخص انصاف سے خود کرسکتا ہے۔ اس زمانہ میں چوںکہ اکثر لوگ حاجت مند ومفلس ہیں اور مال کی محبت اکثر قلوب میں راسخ ہے، اس لیے رسمی اجازت کا اعتبار نہیں،بلکہ ضروری ہے کہ بعدمرنے مورث کے سب کانام بھی درج کرایا جاوے۔ اور ششماہی یا سالانہ آمدنی پر سب حساب کرکے ہر ایک کا حصہ روپیہ یا غلہ اس کو اصرار کرکے دیا جاوے۔ اگر اعلان سے لینا اس کو ناگوارہو تو اخفا کے ساتھ اس کاپورا حق دے یا اس کی جائیداد وغیرہ تقسیم کرکے اس کو حوالہ کردے اور جو وہ انتظام نہ کرسکے تو یہ شخص وکالتاً اس کی جانب سے انتظام کرے یا اس کی خوشی سے خود مناسب طور سے ٹھیکے پر لے لے اور رقمِ ٹھیکا اس کو اداکرتا رہے۔
بعض لوگ اپنے جی کو سمجھالیتے ہیں کہ ہم نے تقریبات میں پھوپھی کو بہن کوبھات دیا ہے،جوڑے دیے ہیں اورہمیشہ دیاکرتے ہیں، یہ گویا اس کا حصہ ترکہ کا ادا کردیا جاتاہے۔
اس کے جواب میں وہی حکایتِ مسخرہ میزبان کی جو فصلِ سوم میں لکھی گئی کافی ہے۔
فصلِ پنجم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثرلوگ مسجد کی چیز اپنے برتنے کے لیے لے جاتے ہیں۔کوئی آگ لے جاتا ہے، کوئی سقاوہ میں سے پانی لے جاتاہے۔ کوئی بیمار کے لیے پانی پڑھوا کر مسجد کے لوٹے میں لے جاتاہے، کوئی وہاں کا فرش اپنے دعوتیوں کو بٹھلانے کے لیے لے جاتاہے، کوئی استنجے کے ڈھیلے اپنے گھر استنجا کرنے کے لیے لے جاتا ہے اور اپنے دل کو یوں سمجھا لیتے ہیں کہ مسجد کا مال وقف ہے، اس میں سب کو حقِ انتفاع ہے۔
صاحبو!یہی تو ممانعت کی دلیل ہے، کیوںکہ وقف کا حکم یہ ہے کہ جس غرض کے لیے جس قید کے ساتھ وقف ہو اس کے سوا دوسری طرح یہ استعمال جائز نہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اَشیائے مذکورہ ان اغراض کے لیے وقف نہیں کی گئیں۔ بلکہ جو ضرورتیں نمازیوں کو وہاں نماز پڑھنے کے وقت پیش آتی ہیں ان کے لیے یہ اشیاء وقف ہوتی ہیں۔اس لیے اس شرط وقید سے تجاوز کرنا حرام ہوگا۔