نے گیا، اس وقت یہی شخص اس جگہ کا مستحق ہے۔ دوسرے شخص کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ ایک حدیث اس مضمون کی بھی آئی ہے۔
فصلِ ہشتم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثر مساجد میں امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ممتاز اور بلندہوتی ہے۔ بعض جگہ امام بالکل محراب کے اندرکھڑاہوتاہے۔ ان دونوں صورتوں کو ۔ُفقہا نے مکروہ لکھا ہے۔ بس اس میں احتیاط کرنی چاہیے کہ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ایک بالشت بھی بلند نہ ہو اور کم از کم پاؤں محراب سے باہر رہنے چاہییں۔
فصلِ نہم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثر لوگ دوچار نسخے یاد کرکے مطب اور علاج شروع کردیتے ہیں۔ نہ کلیات سے واقف نہ جزئیات کے احکام معلوم۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو شخص طب میں ماہر نہ ہواور علاج کرے اور اس کے علاج سے کوئی نقصان ہوجاوے وہ ضامن ہے‘‘۔1 یعنی دنیامیں قابلِ ملامت اور آخرت میں مستوجبِ عذاب ہے۔ ’’نیم حکیم خطرۂ جان، نیم ملا خطرۂ ایمان‘‘ مسلّم ہے۔
فصلِ دہم: من جملہ ان رسوم کے یہ رسم ہے کہ قربانی کے جانور میںلازم سمجھتے ہیں کہ پائے حجام کاحق ہے اور سری سقہ کا۔2 اسی طرح عقیقہ میں اپنے اپنے حقوق لازم کررکھے ہیں، اس کو دینے والا اور ایسے ہی لینے والا ضروری سمجھتے ہیں، وگرنہ وہ شکایت اورمذمت و ہجو کرتے پھرتے ہیں۔یہاں تک کہ یہ لوگ بلا اجازت مالک کے یہ چیزیں اُٹھا لے جاتے ہیں۔ پس سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت میں اس لزوم کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس میں بڑی خرابی لازم آتی ہے۔ وہ یہ کہ قاعدۂ فقہیہ ہے کہ اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ۔ پس جب اس درجہ کا عرف ہوجاوے تو ایسا ہوگا جیسا اُن لوگوں سے شرط ٹھہرائی گئی ہو، اور اگرکوئی شرط اس طرح ٹھہراوے کہ ہمارا فلاں کام کیا کرو، تم کواس خدمت کے معاوضہ میں فلاں چیز دیں گے، وہ چیز اس صورت میں اُجرت ہوگی اور اُجرت بذمہ کام لینے والے کے دین ہے، تو گویا اس شخص نے قربانی کے اجزاء سے اپنا دین ادا کیا اور یہ حکمِ بیع میں ہے اور حرام اور باطل ہے، صرف تبر۔ّعات میں اس کا ۔َصرف کرنا جائز ہے۔ اسی طرح کھال کو یہ سمجھنا کہ مؤذن کا حق ہے، اس میں بھی بعینہٖ وہی خرابی ہے، جیساکہ ادنیٰ تأمل سے معلوم ہوسکتا ہے،