{ہُوَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ}2 تا آخر سورئہ حشر۔ اور ایک روایت میں اس کی تعلیم آئی ہے: {وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِیْ الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌ مِّنَ الذُلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا}1 ابن السنی نے اس کا حضور رسول مقبول ﷺ کے معمولات شریف سے ہونا حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور کسی متبرک بزرگ کی خدمت میں اس کو لے جاکر بسم اللہ کہلاؤ اور اس نعمت کے شکریہ میں اگر دل چاہے بلا پابندی جو توفیق ہے خفیہ طور سے راہِ خدا میں کچھ خیر خیرات کردو، باقی سب پکھنڈ ہیں۔
فصلِ چہارم: من جملہ ان کے وہ رسوم ہیں جو ختنہ میں عوام نے اضافہ کررکھے ہیں:
۱۔ لوگوں کو آدمی اور خطوط بھیج کر بلانا اور جمع کرنا، جو بالکل خلافِ سنت ہے۔
مسندِ احمد میں حسن ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کو کسی نے ختنہ میں بلایا، آپ نے تشریف لے جانے سے انکار فرمایا۔ آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی۔ آپ نے جواب دیا کہ ہم لوگ عہدِ رسول اللہ ﷺ میں کبھی ختنہ میں نہ جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت میں جس امر کا اعلان ضروری نہیں اس کے لیے لوگوں کو جمع کرنا، بلانا خلافِ سنت ہے۔ اس میں بہت سی رسمیں آگئیں جن کے لیے لمبے چوڑے اہتمام ہوتے ہیں۔
۲۔ بعض موقع پر لڑکا قریب بلوغ کے ہوتا ہے، جس کا بدن مستور دیکھنا بجز ختنہ کرنے والے کے دوسروں کو بلا ضرورت حرام ہے۔ سب بے تکلف دیکھتے ہیں اور گنہگار ہوتے ہیں۔ اور ان گناہوں کا باعث بلانے والا ہوتاہے۔
۳۔ کٹوری میں نوتہ پڑنے کا فضیحہ یہاں بھی ہے جس کی خرابیاں اسی باب کی فصلِ اول ودوم میں مذکور ہوچکی ہیں۔
۴۔ بچہ کی نانہال کی طرف سے کچھ نقد وپارچہ دیا جاتاہے جس کو عرف عام میں ’’بھات‘‘ کہتے ہیں، جس کی اصل فاسد ہے کہ کفارِ ہند اولادِ دختری کو میراث نہیں دیتے تھے۔ جاہل مسلمانوں نے ان کی دیکھا دیکھی یہ شیوہ اختیار کیا اور اگر فرضًا ان کی تقلید نہیں کی خود ہی یہ رسم ایجاد کی ہو تب بھی بری رسم ہے۔
کسی حق دار کا حق جس کو اللہ ورسول ﷺ نے مقرر فرمایا ہو اس کو نہ دینا اور بلا طیبِ خاطر ذی حق کے اس سے خود منتفع ہونا عقلاً وشرعًا ہر طرح سے برا ہے۔ غرض جب دختر کو میراث سے اس طرح محروم کیا تو طفل تسلی کے طور پر اس کا تدارک یہ اختراع کیا گیا کہ مختلف موقعوں اور تقریبوں میں ان کو کچھ دے دیا جایا کرے۔ گویا ان کا حق جو ہمارے ذمے تھا وہ اس بہانہ سے ادا ہوگیا۔ سو ظاہر ہے کہ اس طرح دینے دلانے سے ہر گز ان کا وہ حق ادا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ادائے