محروم رہے، یہ جبر اور حرمان دونوں مذموم ہیں۔
۴۔ بعض لوگ شوق میں شریک تو ہوجاتے ہیں، مگر پھر ایسی مصیبت پڑتی ہے کہ توبہ توبہ کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں، پھر بیٹھ کر سنتے ہیں، پھرلیٹ جاتے ہیں، اِدھر قرآن ختم ہورہا ہے اُدھر سب حضرات آرام فرمارہے ہیں۔ بعض آپس میں باتیں کرتے جاتے ہیں۔ غرض قرآنِ مجید کی بہت ہی بے ادبی ہوتی ہے۔ اور صورت اعراض کی سی معلوم ہوتی ہے۔اس میں سحری کا وقت آجاتاہے، تو اس ختم کرنے کے خیال سے پڑھنے والے کو سب کے ساتھ سحری میں شریک نہیں کرتے، وہ کھڑا سنارہا ہے اور سب کھانا کھارہے ہیں۔ قرآنِ مجید سننے کے وقت دوسرا کام کرناہرگز جائز نہیں۔
۵۔ بعض حفاظ نماز سے خارج ہوکر پڑھنے والے کو بتلاتے رہتے ہیں اور سب کی نماز تباہ کرتے ہیں۔
۶۔ بعض جگہ سحری کے لیے چندہ ہوتاہے اور دباکر شرماکر بھی وصول کیا جاتاہے، جس کا حرام ہونا آگے آتاہے۔
۷۔ بعض اوقات صبح صادق ہوجاتی ہے اور قرآن کچھ رہ جاتاہے۔ خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کوپورا کر ڈالتے ہیں۔ بعد صبح صادق کے اور نوافل پڑھنا مکروہ ہے بجز دورکعت سنتِ فجرکے۔
پنجم: ختم کے روز اکثر مساجد میں معمول ہے کہ شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔ ہرچند کہ قرآنِ مجید کاختم ہونا ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، جس کے شکریہ اور فرحت میں کوئی چیز تقسیم کرنا بہت خوب امر ہے۔ مگر اس میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں:
۱۔ چوں کہ اس کا عام رواج ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اگر شیرینی تقسیم نہ ہو تو عام لوگ ملامت وطعن کرتے ہیں۔ اس لیے تقسیم کرنے والوں کی ۔ّنیت اکثر اچھی نہیں رہتی۔ اسی الزام سے بچنے کے لیے لامحالہ تقسیم کرتے ہیں خواہ گنجایش ہو یا نہ ہو۔ بعض اوقات تردّد کرنا پڑتاہے، مگر یہی خیال ہوتاہے کہ بھلا کیسے تقسیم نہ ہو، لوگ کیا کہیں گے اور رِیا وتفاخر کا حرام ہونا اور اس ۔ّنیت سے جو فعل ہو اس کا معصیت ہونا چند بار بیان ہوچکا ہے۔
۲۔ اکثر جگہ چندہ سے شیرینی آتی ہے اور اہلِ محلہ اور نمازیوں سے جبر۔ً ا چندہ لیا جاتاہے اور یہ بھی جبر ہے کہ ان کومجمع میں شرمایا جاوے یا ایسا شخص مانگنے اُٹھے جس کی وجاہت کا اثر پڑے۔ چوںکہ حدیث میں وارد ہے کہ ’’کسی مسلمان کا مال بلا طیبِ خاطر اس کے حلال نہیں‘‘۔ اس لیے ایسا چندہ اور جو اس سے خریدا جاوے ، سب ناجائز ہے۔
۳۔ اس روز مٹھائی کے لالچ سے ہر طرح کے لوگ مسجدمیں بھر آتے ہیں۔ بے نمازی، پا برہنہ، تن برہنہ، لونڈے جن کی طہارت کا، نجاست کا کچھ اعتبار نہیں اور تمام مسجد اور فرش کو ملوث کرتے ہیں۔ اور غل غباڑہ اس قدر ہوتاہے کہ نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے۔
۴۔ مجمع کو سنانے کے لیے خود حافظ صاحب بھی اس روز خوب بناکر پڑھتے ہیں۔ رِیا کا مذموم ہونا اور اس کے اسباب